بدھ، 12 جون، 2013

فجر کی نماز جامعہ اشرفیہ میں پڑھی اور جامعہ نعیمیہ میں بم دھماکہ کیا


از یاداشت :عبدالرزاق قادری
ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کی شہاد ت سے ظالموں کی عدم گرفتاری تک:

جون 13،  2009  ہفتےکے دن میں نے میکلوڈ روڈ پر لاہور ہوٹل کے چوک میں یہ نعرہ لگتے سنا تھا ۔ "نعیمی تیرے خون سے انکلاب آ ئےگا"۔ 12 جون 2009 کو نماز جمعہ کے بعد ایک کمسن لڑکے نے جامعہ نعیمیہ میں ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے دفتر کے پاس خودکش دھماکہ کیا ۔ اور ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی شہادت کے بلند رتبہ پر سرفراز ہوئے۔  میں ان دنوں میکلوڈ روڈ پر نوبل لائن میں ملازم تھا۔  میں نے نماز جمعہ کے بعد ٹی وی پر یہ خبر سنی۔
                             14جون کو ہمارے جامعہ اسلامیہ رضویہ میں ماہانہ اجتما ع تھا ۔  میں نے سوچا تھا کہ اب ہمارا   وہ اجتماع بھی دہشت گردی کے خدشے کے پیش نطر کینسل ہو جاے گا۔  لیکن  علامہ محمدارشدالقادری کی اس دن والی تقریر سننے سے تعلق  رکھتی ہے۔اس دن میرے ساتھ حسنین شاہ بھی جامعہ اسلامیہ رضویہ میں گئے تھے۔  اور تقریر کا موضوع  "تھام لو دامن مصطفیٰ" تھا۔  اجتماع والے دن ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کی شہادت پر  علامہ ارشد القادری نے فرمایا تھا۔
لوگو! جہاد اور فساد میں فرق ہوتا ہے ۔ صحابہ نے جو کیا وہ جہاد تھا۔ اور جو کچھ ایک عرصہ پہلے ہوتا رہا اور جوکچھ لوگ آج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے

                                           ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی ،مفتی محمد حسین نعیمی کے بیٹے تھے۔ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور ان کی زیر نگرانی و سرپرستی میں چلتا رہا ۔ جامعہ نعیمیہ آج کل مفتی صاحب کے بیٹے علامہ راغب  حسین نعیمی کی سر پرستی میں اپنا علمی مشن جاری رکھے ہوئے  ہے۔ ہم روزانہ استحکام پاکستان، پاکستا ن بچاؤ کانفرسز کے اشتہارات دیکھتے تھے۔لیکن صد افسوس کہ اسی پاکستان میں آج تک ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔
انھوں نے نعرہ لگایا تھا ۔
"گو امریکہ گو"
"گو طالبان گو"
تجھے سچ بلانے کا شوق تھا نا ؟
صلیب و  دار تیرے منتظر ہیں
                   میں نے اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ کی ریکاڈنگ  کی کمپوزڈ کتاب جلد اول میں پڑھا تھا کہ اشفاق احمد ماڈل ٹاؤن پولیس سٹیشن  میں عید ملنے گئےتھے۔  مجھے بھی اشفاق احمد کی یاد تازہ کرنے کاموقعہ ملا۔ میں اس پچھلی عید پر پولیس سٹیشن جا کر سپاہیوں سے عید ملتا رہا تھا۔آپ کو ایک حیران کن خبر بتاتا ہوں۔ گامےشاہ  کے سامنےاردو بازار والی گلی میں تھانہ لوئر مال کے چھوٹے دروازےپر جو سپاہی عیدالفطر 1433 ہجری کے دن موجود تھا ۔  اس سپاہی کے بقول خودکش حملہ آور بچے نے ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کرنے سے قبل فجر کی نماز جامعہ اشرفیہ میں پڑھی تھی۔ اور وہ سپاہی خود  اس کیس کی انویسٹی گیشن ٹیم کا حصہ تھا
جامعہ اشرفیہ فیروزپور روڈ لاہور پر واقع ہے۔ کیا یہاں بھی لال مسجد کی طرز پر  "سائیلنس اپریشن" کی  ضرورت ہے؟
مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی دوست تھے۔ مارچ 23، 2013 کو ان کے عرس  کی تقریب میں میاں صاحب  نےوہاں خطاب بھی کیا تھا۔ اب یہ ذمہ داری لازمی طور پر میاں صاحب پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اصل حقائق تک پہنچیں اوربچوں کی برین واشنگ کر کے اس طرح کے گھناؤنے کردار ادا کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائیں