منگل، 30 اکتوبر، 2012

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

اگرآپ پاکستانی سڑکوں پر یہ سوچ لے کر چلتے ہیں کہ میں تو اپنے ہاتھ سیدھا سیدھا جارہا ہوں ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی میں نہیں کر رہا تو میں تو ٹھیک ٹھاک منزل مقصود تک پہنچ جاؤں گا تو یہ آپ کی بھول ہے آپ نے سمجھ لیا کہ آپ اندھے ہیں جبکہ دوسرے سب بینا ہیں جبکہ یہاں سڑک پر سفر کرنے کا دستور یہ ہے کہ آپ بینا ہیں باقی سب اندھے ہیں اور ان اندھوں کی طوفانی بھاگ دوڑ میں آپ کو اپنا دامن بچا کر گزرے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد پاگلوں کا ایک جتھا موٹر سائیکلوں پر سوار آئے گا اور آپکے قریب آکر طوفان بد تمیزی برپا کر کے آپ کو ہر اساں کرتے ہوئے آگے نکل جائے گا آپ ان کا منہ تکتے رہ جائیں گے اور اتنی دیر میں ایک اور موٹر سائیکل سوار تیز و تند رفتار سے جاتا ہوا ایک پریشر ہارن بجاکر آپ کی جان نکالنے کے قریب جائے گا اور آپ کے اعصاب شل ہو جائیں گے اپنے محلے کے پاس پہنچیں گے تو گلی میں ایک شادی کا جشن ہورہا ہو گا جس میں اونچی آواز سے بے ہو دہ گانوں کی آوازیں نشر ہو رہی ہوں گی اور آپ کی پوری رات کا سکون غارت کرنے کا سامان کیا جا رہا ہو گا ان کے پاس ہنگامی حالت میں جنریٹر کی سہولت بھی موجود ہوگی گھر میں پہنچ کر بھی گھر سے اور ہمسائے سے آتی ہوئی ٹیلی ویژن کی آوازیں سماعتوں میں زہر گھول دیں گی نیوز چینل چیخ چیخ کر قوم کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہوں گے اور غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں آپ کی نئی نسلوں کے ذہنوں میں ثقافت کے نام پر باطل افکار گھسیڑرہے ہوں گے اخباروں اور رسالوں میں بھی فحش اور نیم عریاں تصا ویر آپ کو دعوت نظارہ دیں گی اور پیسے لے کر چھاپی گئی ٹکے ٹکے کی خبریں پہلے صفحے پر آپ کو پڑھنے کو ملیں گی دینی خبریں اور ملت اسلامیہ کی فکری خبریں آپ کو ایک انچ اور ایک کالم کے خانے میں ملیں گی اداریے کھول کر پڑھنے سے پتہ یہ چلے گا کہ بین الاقوامی سیاسی سطح پر بھی علمی سطح پر بھی اور تاریخی سطح پر بھی ملکی اور ملتی سلامتی سے بڑھ کر اغیار کا دفاع ضروری ہے آپ کسی مرکزی سڑک سے گزررہے ہوں تو ٹریفک گھنٹوں جام ملے گی وجہ معلوم کرنے پر عقدہ یہ کھلے گا کہ برسراقتدار پارٹی کے لوگ لو ڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور پولیس ان کو حفاظت فراہم کررہی ہے جب کہ یہ لوگ صر ف ایک وقت کے کھانے کے عوض توڑ پھوڑ کر کے اپنے گھروں کی راہ لیں گے ٹریفک کے قوانین کی پابندی کروانے والے مجوزہ چالانوں کا ہدف پورا کریں یا قانون نافذ کروائیں؟ ہمارے ہاں چار طرح کی ٹریفک پولیس فورسز ہیں اور پانچویں نو کر شاہی، چھٹی کوئیک رسپانس فورس اور ساتویں محافظ دستے لیکن نہ تو ٹریفک انسانوں کی طرح چلتی ہے اور نہ ہی سڑکوں سے ڈاکوں کی واردات ختم ہوتے ہیں آرہی ہیں بلکہ ان میں آئے روز اضافہ رو بہ عمل ہے انتظامیہ مفلوج ہے عوام بے بس، بد حا ل اور خواص بد کردار
                   لاؤڈ سپیکر کا قانون صرف مسجد کے لیے ہے باقی سارا سارا دن اور پوری پوری رات فحش گانوں سے جو انار کی پھیلائی جارہی ہے وہ تو ثقافت کا حصہ ہے حالا نکہ اسی سے بدکاری کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے دینی لٹریچر تو لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ فحاشی پھیلانے کے اسباب کو تفریح بتایا جارہا ہے اور جرائم کی شرح میں اضافہ اسی نادانی کی وجہ سے بتدریج بڑھ رہا ہے دینی کتابیں مفت لے کر بھی کوئی پڑھنے کو تیار نہیں۔ جبکہ ہفتہ وار فیشن میگزین زر کثیر خرچ کرکے منگوائے جاتے ہیں اور گھروں میں ناچاقی کا سبب خرچ اور آمدن کا توازن بگاڑنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اخباروں کے حوالے سے نوجوان نسل کا رحجان کھیل اور شو بز کی خبروں تک اور ستارے دیکھنے تک اگر سو فی صد ہے تو تعلیمی اور دینی خبروں تک دس فی صد بھی نہیں رشوت لے کر لکھے گئے اداریے اور کالم ایک دن کا ادب تخلیق کرتے ہیں جبکہ چند دن کے بعد وہی کالم نویس اپنے پہلے نظریے کے خلاف لکھ رہا ہوتا ہے کیونکہ پیسے سے اُس کی ذات کیا اس کا ایمان بھی باآسانی خریدا رجارہا ہوتا ہے اور وہ دنیا کی عارضی عیش و عشرت کے لیے باطل کا ترجمان بن رہا ہوتاہے اپنی حکومت میں اُسی پارٹی کا لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ صرف عوامی جذبات کو اپنی حمایت میں لے کر آنے کیلئے ہو تا ہے ورنہ اُ ن کے محلات کے پرندوں کو بھی لوڈ شیڈنگ کے لفظ کے معانی نہ آتے ہوں گے دراصل اس قوم کو کسی کی نظر لگ گئی ہوئی ہے اس میں بہت جوش و جذبہ ہے لیکن اُس کے استعمال کی درست خبر نہیں ہے جو ہر تو ہے جوہر شناس کی کمی ہے لوہا تو ہے مگر اُسے صیقل کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وسائل تو موجو د ہیں لیکن اُن کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے راستہ معلوم نہیں تڑپ تو سبھی رکھتے ہیں لیکن جدوجہد کرنے کا طریقہ نہیں آتا حقیقتاً اُن کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نظام حیات ہے ان کے پاس اعلیٰ ترین دستور بھی موجود ہے لیکن اُن کو بتایا نہیں گیا بتانے والے رات کو فلم دیکھ کر سو جاتے ہیں صبح آٹھ بجے جاگ کر اُن کو کسی طرح یہ پیغام دیا جائے کہ مسجد بھی ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز ادا کرلی جاتی ہے وہاں نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تدریس بھی ہوتی ہے اور مفت تعلیم کا انتظام بھی ہے لیکن اس قوم کو سمجھانے والے کبھی بھی ان کو معاشرے کا کارآمد شخص بنانے کی کاوش نہیں فرماتے وہ ان کو اپنے استاد کا ادب کرنے کا نہیں سکھاتے اس قوم کو پالنے والوں نے اس استاد کا تصور ایک ملازم سے زیادہ نہیں دیا حالاں کہ اساتذہ ہی وہ طبقہ ہیں جو تعلیم دے کر قوموں کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں لیکن استاد سے استفادہ صرف وہی لو گ کرپاتے ہیں جن کی تربیت اُن کے اپنے گھر سے اچھی بنیادوں پر کی گئی ہو اگر تخلیق دینے والے والدین اپنے بچوں کو نیک بننے کا درس نہیں دیتے اور اُن کو ایک متوازن شخصیت نہیں بناتے، اُن کو انسانیت نہیں سکھلاتے تو ہماری سٹرکوں پر نہ تو ڈاکے ختم ہونگے اور نہ ہی بدتمیزی والی ڈرائیونگ ختم ہو گی اور نہ فحش گانوں کا عذاب ختم ہو گا اور نہ ہی ٹی وی پر کفریہ افکار کی یلغار ختم ہو گی، نہ ہی معاشرہ پرُامن ہو گا اور نہ سکون کی زندگی میسر آسکے گی
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں