بدھ، 31 اکتوبر، 2012

جدید تعلیمی نظام اور علوم

دو صدیاں قبل برصغیر میں دینی جامعات میں دس بارہ سالہ نظام تعلیم میں عربی و فارسی صرف و نحو شعر وادب منطق و فلسفہ علم الکلام  و اسماء الرجال علم الحدیث اور حدیث علم التفیر و تفسیر تجوید و قرأ ت جرح و تعدیل فقہ و شریعت تاریخ و تعلیماتِ اسلاف اور عدالت و مسند تقریر و تحریر حساب الجبرا ہندسہ یعنی انجینیرنگ کے علاوہ بے شمار علوم میں ایک یکتائے روز گار شخصیت تیار کرکے سامنے لائی جاتی جو نہ تو نوکری کو اپنا مقصد حیات سمجھتے اور نہ ہی اسے رزق کے حصول کے لیے ضروری گردانتے، جب انگریز ہندو ستان پر قابض ہو گیا تب انہوں نے برصغیر کے لو گوں کے لیے ایک ایسا نظام تعلیم نافذ کیا جو سوچی سمجھی سازش کے تحت تھا کہ ان لوگوں کو اس طرح کی تعلیم دو کہ یہ شکل و صورت اور رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندو ستانی ہوں لیکن ذہنی اور فکری لحاظ سے و ہ مغربی سو چ کے حامل ہوں اوریورپ و امریکہ کے بہی خواہ ہوں ان کے ہیروز کو عظیم انسان ماننے والے ہوں اور ان کفار کی غلامی میں فخر کرنے والے ہوں اور ان کی نقالی کو جدید فیشن سمجھتے ہوں اور ان کو وضع قطع کو خو ب اپنا لینے والے ہوں اگر آنے والے وقتوں میں وہ اپنے ملک پر حکومت بھی کریں تو مغربی دنیا کے وفا دار ہوں ابن علقمی کی طرح غدار ہوں
               اس نظام تعلیم کو یہاں مسلمانوں میں رائج کرنے کے لیے سرسید احمد خان نے اہم کر دار ادا کیا اور انگریز نوازی اور ان کی وفاداری کا پوراپورا حق ادا کیا دین اسلام کی تعلیمات میں مشتر قین کے انداز سے تنقید و افکار کو خوب نبھایا اور اسلامی بنیادی عقائد کا منکر ہوا ڈاکٹر خلیل احمد نے علمی کتاب خانہ سے شائع شدہ توضیح القرآن برائے بی اے میں قرآن کی تحریف معنوی کے ضمن میں سر سید خان کو محرف لکھا ہے اور اسے فرشتوں اور جنوں کا منکر بتایا ہے انگریزی تعلیم جو کہ غلامی کا درس تھی اسے اپنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مغربی اقوام کا غلا م بنا دینے کا عزم کیے ہوئے تھا مسلمانانِ ہند کے ذہنوں میں احساسِ کمتری کا بیج بونے والا یہی انگریزی نظام تعلیم تھا
               انگریزی زبان و ادب اور سائنس و ٹیکنالو جی کو پڑ ھنا یا اس کو سیکھنا ایک الگ بات ہے جبکہ انگریزی تہذیب کی پیروی کر کے تفاخر کا احساس ہونا دوسری بات ہے اور دیگر مسلمانوں کو گھٹیا اور جاہل سمجھ لینا دراصل اپنے بزرگان دین اور اسلامی تعلیمات سے فرار کا نام ہے پندرھویں صدی سے لے کر انیسویں تک سامانِ حرب اور صنعت کاری میں ہی مسلم دنیا پیچھے تھی (بلکہ بارود کی دریافت کنندہ بھی عرب ہی تھے) ورنہ علوم و فنون کے دیگر معاملات میں انگریزی نظام تعلیم کے بل بوتے پر مسلم دنیا نے کون سا تیر ما ر لیا ہے؟ اورنئی تہذیب سے آگاہی کے خواب نے ان کو کس اعلیٰ مقام پر پہنچادیا ہے؟ اس کی تقلید کی بدولت آج سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا مقام ابھی تک کیا ہے؟ اور ہم کس مقصد کو اپنی منزل قرار دے کر اغیار کی دیوانگی میں حد سے بڑھتے جا رہے ہیں ہمیں اپنے اسلاف کی زندگیوں سے جہاں بانی سیکھنے کا کوئی مو قع کیوں نہیں مل پا رہا؟ اور ہم اس عارضی زندگی کے لیے کون سے مستقل انتظامات کرنے جارہے ہیں؟ کیا آج ہم جدیدیت کی بنا ء پر کشمیر فلسطین، عراق و افغانستان اور بو سنیا و چیچنیا اور برما کے مظلوم و مغلوب مسلمان بھائی بہنوں کی جان و مال کی حفاظت اور عزت آبرو کو پامال ہونے سے بچانےکےاہل ہوگئے ہیں؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں