بدھ، 20 جون، 2012

لاہور میں میرے ساتھ ڈاکے کی واردات

آج 20 جون 2012 صبح 4 بجے کے چند منٹ بعد جب میں آن لائن قرآن پڑھانے کے لیے دفتر جا رہا تھا ۔ داتا دربار سے ایک رکشہ والے نے کہا ، 
کلمہ چوک ، کلمہ چوک
کتنا کرایہ ؟
پچاس روپے فی مسافر
بھائی میں روزانہ جانے والا مزدور ہوں ، تھوڑا کم کر لو ، دیکھو کتابیں بھی پکڑی ہیں ، طالب علم بھی ہوں۔
صرف یہاں سے سواری (مسافر) بٹھانی ہے ، پھر نان سٹاپ چلتے ہی جانا ہے۔
پیسے کم کر لو۔
پہلے ہی کم ہیں۔
میں رکشے میں بیٹھ گیا۔ بھاٹی سے گزرتے ہوئے مزید لوگوں کو شریک سفر کرنا چاہا
کلمہ چوک ،کلمہ چوک ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کوئی مسافر نہ ملا۔ رکشے والے نے بتایا ۔ اس کی فلاں فلاں مستقل سواریاں (مسافر) ہیں ۔ اگر وہ ہوں تو مجھے کبھی اضافی سواری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میں نے پونے پانچ بجے قینچی پھاٹک پہنچنا ہے۔ وہاں سے بھی کسی مستقل سواری کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ہے۔
رکشے والے کو میں نے اپنا پیشہ بتایا۔ اس نے میرے دفترکا پتہ بھی پوچھا۔ برکت مارکیٹ بتایا�آآ گے ضلع کچہری سٹاپ سڑک زیر تعمیر اور راستہ بند تھا ، اس نے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی کی طرف سے موڑا ۔ 
جی۔ سی۔ یو (گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی ) کے گیٹ سے ناصر باغ (گول باغ) کے بالائی حصے سے گھوم کر اگلے چوک سے عجائب گھر کے سامنے سے گزرا۔ پنجاب پبلک لائبریری کے مرکزی دروازے کے سامنے سے ہو کر جین مندر چوک(بابری مسجد چوک) سے لیک روڈ (پی آئی اے کے جہاز والے پارک کے اس طرف سے) ہو کر چوبرجی۔
رکشہ ڈرائیور راستے میں سڑکوں کی توڑ پھوڑ پر صوبائی حکومت ، اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر وفاقی حکومت کو الزام دیتا رہا۔ میں بھی حسب عادت ان موضوعات پر اپنا اظہار رائے کرتا رہا۔
رکشے والے نے کہا ۔ ہمارے دو ہی سٹاپ ہیں ۔ دربار اور چوبرجی۔ ورنہ نان سٹاپ۔ چوبرجی بھی شور مچایا ۔
کلمہ چوک ، کلمہ چوک ۔۔۔۔ ماڈل ٹاؤن موڑ ، کلمہ چوک ، کلمہ چوک
ویگن کے انتظار میں کھڑے ایک مسافر نے کہا ، قینچی سٹاپ۔۔؟
نہیں ، بس کلمہ چوک اور موڑ ماڈل ٹاؤن تک بس 
یوں رکشہ آگے ہانک دیا ۔ چند قدم کے بعد دو تین افراد کو پھر دعوت سفر۔ پھر انکار۔
میانی صاحب قبرستان کا علاقہ شروع ہوا۔
غازی علم دین والی گلی گزر کر آگے۔۔۔۔
دائیں طرف سے ایک موٹر سائیکل قریب ہوئی ۔ دو صحت مند سپاہیوں کی طرح کے نوجوان ۔ پچھلے کے ہاتھ میں کالے رنگ کا پستول ۔۔۔۔۔۔
سائیڈ پر لگاؤ ۔۔۔۔۔۔ رکشا سائیڈ پر لگاؤ ۔۔۔۔۔۔ 
وہ رکشا روک کر آگے سے گھوم کر آئے ۔ اگلی سائیڈ پر دوکانیں تھیں ۔ وہاں سے ایک اور آدمی نکلا۔ پستول والے نوجوان نے کہا۔
پیچھے گلی میں چلا جا ۔۔۔۔ پیچھے گلی میں چلا جا ۔۔۔۔
وہ بھی پیچھے چلا گیا۔ اپنی جان پیاری تھی ۔ 
سپاہی نما (عام سی شرٹ اور جینز میں ملبوس) ڈاکو نوجوان نے مجھے کہا۔ پرس(والٹ) اور موبائل نکال دو۔
میرے پاس جو پیسے تھے وہ بھی دے دیے۔ موبائل بھی بادل نخواستہ ۔ سوچا اب اتنے لوگوں کے رابطہ نمبرز کہاں سے آئیں۔ سوچا سِم میں 250 نمبر ہیں۔ چونکہ اس طرح کی صورت حال سے دوسری بار پالا پڑا تھا۔ پہلی بار 6 اکتوبر 2009 کی شام آٹھ بجے بھی نواب ٹاؤن یہی معاملہ درپیش آیا تھا۔
حوصلہ کر کے کہ دیا۔
سِم نکال دو۔
ڈاکو:نکال کے دیتے ہیں تجھے۔۔!
میری جیب میں سے باقی سب چیزیں چیک کر کے رکشے کی سیٹ پر پھینک دیں۔ شناختی کارڈ۔ صحافتی کارڈ۔ ڈیبٹ کارڈ۔ مختلف وزیٹنگ کارڈز۔ پرچیاں۔ بس ٹکٹ۔ ریل کا ٹکٹ(کزن عرفان کا، جس کرایہ چالیس درج ہے اور ٹکٹ گھر والے لیتے نوے روپے ہیں)
مکمل جامہ تلاشی لی۔ میری کتابیں صفحات پلٹ پلٹ کر دیکھیں۔ نوٹس کی فائل کو بھی چھانٹا ۔ 
رکشے والے نے اس ڈاکو میرا پیشہ بتایا۔
اے قرآن پڑھاندے نے جی۔
ڈاکو نے میری ڈاڑھی کو ہاتھ لگایا ۔ جیسے پیار نما ترس یا ترس نما پیار کیا ہو۔
یہ تھیلے میں کیا ہے؟
مجھے نہیں پتا ۔ میں تو دربار سے بیٹھا ہوں یہ پہلے سے ہی تھا۔
اب رکشے والے سے یہ تھیلے میں کیا ہے؟ جی سبزی ہے۔ گھر کے لیے۔
اور ڈاکو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا ۔وہ جا۔
گلی والا چاچا بھی آگیا۔
کوئی گل نہیں صوفی صاحب۔ اللہ ہور دے دئے گا۔ کوئی گل نہیں صوفی صاحب۔ اللہ ہور دے دئے گا۔ کوئی گل نہیں صوفی صاحب۔ اللہ ہور دے دئے گا۔پریشان نہ ہووو۔(شاید اسے پتہ تھا کہ کل جب اس کے اپنے ساتھ بھی خدانخواستہ ایسا ہوا تو مدد کی بجائے صرف دلاسہ ہی ملے گا)
رکشے والے نے کہا۔
تم کسی کو گلی میں بلا کر لا نہیں سکتے تھے؟ اس نے اپنا کئی عذر پیش کیا اور اپنی مصروفیت بتائی۔
رکشا دوبارہ اپنے سفر پر گامزن ہو گیا۔
ڈرائیور: یہ ساتھ ہی تھانہ ہے۔ آؤ چلتے ہیں۔
میں: چھوڑو یار ۔ مجھے کلاس پڑھانی ہے۔ جلدی کرو۔
ڈرائیور نے ان ڈاکوؤں کو غائبانہ گالیں دیں۔ ان کے رزق حرام پر اور قوم کی حالت زار پر پر سوز تبصرہ کیا۔
اور میں سنا کِیا۔
پھر فیروز پر روڈ اس نے کہا۔
میرے ساتھ یہ دوسرا واقعہ ہوا ہے۔ پہلی بار فیصل ٹاؤن سے ڈائیوو بس ٹرمینل تک آتے ہوئے ایک بار گرمیوں کی صبح چھ سے سات کے درمیان کا وقوعہ بتایا۔ اس میں ایک فیملی کو لوٹا گیا تھا برکت مارکیٹ کے پاس۔اور اس واقعے کے پس منظر میں رکشے والے نے پولیس کو ڈاکوؤں کا حصہ دار اور بالواسطہ ملوث قرار دیا۔
میں نے سوچا کہ ان دونوں واقعات میں ہر بار ڈاکو مسافروں سے رقم اور سونا اور موبائل چھینتے ہیں۔ رکشے والے کو کیوں معاف کر دیتے ہیں۔
میں نے کہا۔ میرے ساتھ برکت مارکیٹ میرے دفتر تک چلو۔ آپ کو آپ کاکرایہ دیتا ہوں۔ میری جیب میں بیس روپے بچ گئے تھے۔دفتر پہنچ کر اس کو پچاس روپے دیے۔ کلاس پڑھائی۔ اب یہ واقعہ اردو میں کمپوز کیا۔ ۷ بج کر ۱۷ منٹ۔ ۲۰ جون۲۰۱۲۔ عبدالرزاق قادری