ہفتہ، 15 اپریل، 2023

غریدہ فارقی کے سروے میں ہے قوم کی حیات

عمران خان کے دور حکومت میں نہ تو بم دھماکے ہوئے اور نہ ہی ڈرون اٹیک ہوئے۔ اسی حقیقت میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ دہشتگردی کون واپس لایا۔

جب سے نیک حکومت آئی ہے یہ دونوں سلسلے دوبارہ سے شروع ہو گئے۔ تو اس کا ملبہ انہی پر ڈالا جائے جو اس کے سزاوار ہیں۔


ایک دہشتگردی مہنگائی کی بھی ہے، اس پر بھی سوال اٹھنا چاہیے تھا دوسری دہشتگردی ماوراء عدالت اقدمات قتل کی ہے، تیسری دہشتگردی قوم کو حق خود ارادی سے روکنے کی ہے، چوتھی دہشتگردی پرامن سیاسی ریلی پر ظالمانہ، وحشیانہ بربریت کی ہے، پانچویں دہشتگردی آدھی رات کو لوگوں کے گھروں پر حملوں۔۔۔۔کی ہے، چھٹی دہشتگردی دنیا کی سب سے بڑی کابینہ رکھنے کی ہے، ساتویں دہشتگردی انڈسٹری کو بند کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی بندش اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی ہے، آٹھویں دہشتگردی دکانداروں کو بجلی بل میں بے تحاشا بل بھیجنے کی ہے۔ دسویں دہشتگردی آئین سے انحراف اور عدلیہ پر حملے کی ہے۔۔۔


گیارھویں دہشتگردی آیان علی اور مقصود چپڑاسی جیسے کرداروں کے ذریعے کرپشن اور منی لانڈرنگ کی ہے۔

بارھویں دہشتگردی احساس پروگرام کو بند کرنا اور مستحق خاندانوں اور طلباء کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔

اسی طرح بہت طویل فہرستیں ہیں ایسی دہشتگردیوں کی جن کے ذمہ دار موجودہ کرپٹ حکمران ہیں۔


جو لوگ مجھے ایک سال تک تحریک انصاف کا نمائندہ سمجھتے رہے، ان کا شکریہ لیکن تحریک انصاف کے دور میں وہ مجھے کسی اور جماعت کا ترجمان محسوس کریں گے۔


میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہوں۔ البتہ میرے مشاہدے پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔


ایک بات ماننی پڑے گی کہ عمران خان کے دور حکومت میں جب جب انصافیئن(ز) کو یہ محسوس ہوا کہ حکومت ظلم کر رہی تھی تو وہ اپنے ہی "خان" اور حکومت کے خلاف بولے۔


وہی انصافیئنز جو 2018ء میں ٹویٹر پر لکھ رہے تھے کہ ان کی سوشل میڈیا کی جدوجہد کا واحد مقصد عمران خان کو وزیراعظم بنوانا تھا، وقت پڑنے پر وہی لوگ عمران خان کی پالیسیز پر تنقید کر رہے تھے، ٹی ایل پی کے فسادات کے دور میں بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔


جبکہ یہی خوبی جو کہ تحریک انصاف کے معصوم کارکنوں کا طرہء امتیاز رہی، ایسی نیک نیتی آپ کو کسی جماعت میں نظر نہیں آئے گی۔

نون لیگ کے پجاری "بڈھے۔ بڈھے" خبیث دانشور بھی آپ کو ان کے مظالم پر خوش ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ، "تن کے رکھ دتا، تن کے رکھ دتا"۔ 

آپ کسی بھی نون لیگی ووٹر کے منہ سے ارشد شریف اور ظل شاہ کے بہیمانہ قتل کی مذمت نہیں سنیں گے، اور گزشتہ ایک برس میں حکومت کی طرف سے بے شمار ماوراء عدالت کارروائیوں اور قتل کے اقدامات پر تنقید کرتے نظر نہیں آئیں گے بلکہ اس کا جواز فراہم پیش کرتے نظر آئیں گے۔

کامران فیصل، ڈاکٹر رضوان، مقصود چپڑاسی، عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کاٹنے والے انسپکٹر عامر شہزاد، اور آیان علی کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کی پراسرار اموات پر نون لیگی اور پیپلزپارٹی کے ووٹر کبھی ماتم کرتے نظر نہیں آئیں گے۔

کیونکہ قرآن پاک کا فیصلہ ہے۔


ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ 

ترجمہ: "مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے (74)"سورة البقرة


یہ ماننا پڑے گا، کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں اور مُفتی منیب الرحمان جیسے علماءِ سُوء کے دل کچھ ظالم یہودیوں کے دِلوں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں جن کی مذمت قرآن پاک کی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 74 میں کی گئی ہے۔

اور قرآن پاک کے مطابق ایسے لوگوں کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے جو جان بوجھ کر اپنے لیے گُمراہی منتخب کر لیتے ہیں اور ظُلم کو انجوائے کرتے ہیں۔

وما علی الا البلاغ المبین۔


حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے باتوں (خوابوں) کی تاویل کرنا سکھایا تھا۔

اب یہ ہمارے "دانشوروں" پر منحصر ہے کہ وہ کس بات کی تاویل (تعبیر) کیسے کرتے ہیں، یعنی اگر کوئی راہ ہدایت پر آنا بھی چاہے تو الو کے پٹھے اس کی انا کو ضرور مجروح کرتے رہیں گے تاکہ وہ سمجھے، "پھر ایسے ہی سہی"۔

اردو وکیپیڈیا پر "پاکستانی اسٹیبلشمنٹ" کی جامع تعریف کسی نے لکھی ہوئی ہے وہاں ایک امریکی مصنف کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ "انتظامیہ" کا معنی صرف فوج نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ لوگ اور کچھ دیگر اداروں کے سینئر لوگ شامل ہوتے ہیں، ہر ملک کو چلانے کے لیے چار بڑے ادارے یا ستون موجود ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا سربراہ

1۔ صدر مملکت

2۔ آرمی چیف

3۔ چیف جسٹس

اور

4۔ وزیراعظم

ہوتے ہیں، ان سب کے مشترکہ یا انفرادی کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

اور پلڑا جب کسی جانب بھاری ہو تو حتمی فیصلہ بھی وہی کیا جاتا ہے۔

اس وقت ملک میں عوام (جن کے ووٹ سے وزیراعظم بنتا ہے) عمران احمد خان نیازی کے حق میں ہیں۔

صدر مملکت بھی انسانی حقوق کے ساتھ ہیں، عدلیہ بھی انصاف پر پر عزم ہے، تو آرمی چیف اور افواج پاکستان کے افسران بھی عوام ہی کے ساتھ ہیں۔

لہٰذا محترمہ غریدہ فاروقی کی جانب سے کیے جانے والے سروے کو آوازہ خلق کو نقارہء خدا سمجھا جا رہا ہے اور ان شاءاللہ اس مملکت خداداد کا مستقبل تابناک ہے، اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

اتوار، 19 فروری، 2023

انقلاب فرانس کی بازگشت

Public Domain - Wikipedia

عبدالرزاق قادری

ایک سال میں قوم نے دیکھ لیا کہ بہت سے صحافیوں، تجزیہ کاروں اور مبصرین کی آراء غلط ثابت ہوئیں اور ان کے اندازے بھی غلط ثابت ہوتے رہے حتی کہ ایک واقعہ یا پیش آمدہ صورتحال ابھی مکمل بیان نہ ہو پائی ہوتی اور اس کے ساتھ ہی کچھ مزید واقعات جنم لے چکے ہوتے۔


میں نے پچھلے سال (مارچ 2022ء میں) وڈیو لاگز بنانے شروع کر دئیے تھے لیکن پھر تحریک عدم اعتماد آ گئی اور میں خود کو سیاسی ابحاث سے علیحدہ رکھنا چاہتا تھا۔ میرا یہ شوق نہیں ہے کہ لوگ مجھے سیاسی تبصرہ کار کے طور پر پہچانیں، حالانکہ یہاں نامور تجزیہ کاروں کی چربہ سازی سے کچھ بہتر حافظہ رکھتا ہوں اور کسی بات کو مختلف پہلوؤں سے دیکھنے اور بیان کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے لیکن میں نے صحافت کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بنایا اور ان طریقوں سے بنانا بھی نہیں چاہتا جو کہ رائج ہیں۔


بہت سے صحافی گفتگو اور تحریر کے دوران لکھ کر اس امر کا ہلکا سا اشارہ دیتے رہتے ہیں کہ جس سے وہ تنخواہ لیتے ہیں اسی کے ڈر سے وہ "مکمل سچ" نہیں بول پاتے، یا یوں سمجھ لیں کہ وہ کسی میڈیا ہاؤس کے پالیسی بیانیے کے خلاف نہیں جا سکتے اور مجبورا خود کو ملے ہوئے ٹاپک پر چیف ایڈیٹر یا ایم۔ ڈی۔ کے احکامات کے مطابق تبصرہ لکھتے ہیں اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔


بہرحال اس ایک سال کے سیاسی واقعات نے صحافت کا چہرہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر "چینلز" کا جو جمگھٹا لگ رہا تھا اس کی قلعی بھی کھل چکی ہے، کہ کوئی کیوں سنے تمہارا چینل؟ جب لوگوں کو فرسٹ ہینڈ انفارمیشن مل رہی ہے وہ آپ سے گھسی پٹی جعلی خبریں کیوں سنے اور کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے 30 سال پرانے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جو فضول "خبر" آپ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دس مہینے سے وہی جھوٹ الاپتے چلے جا رہے ہیں جو مئی جون میں سوچا گیا تھا تو لوگ کب تک ان چیزوں کو حقیقت سمجھتے رہیں گے۔


قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے ہمیشہ سے پاکستانی عوام کے جذبات یہی رہے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں لیکن سن 2022ء میں ہونے والے بے شمار واقعات نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اور حتی کہ پشاور میں پولیس کی مسجد میں دھماکے کے بعد پولیس کے لوگوں نے جلوس نکالا اور نعرے لگائے کہ، "یہ جو نامعلوم ہیں سب ہمیں معلوم ہیں"۔


پاکستان کی 75 سال کی تاریخ میں ایسی واضح آوازیں کبھی نہیں اٹھیں کہ لوگ چیزوں کو سمجھ بھی رہے ہیں اور انہیں بیان بھی کر رہے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ ٹی۔ایل۔پی کی اسلامیات ساری ایکسپوز ہو گئی کہ ایک حکمران کے لیے فرانس بلاوجہ "حرام" تھا دوسرے حکمران کے لیے وجہ کے ساتھ بھی "حلال" ہی رہا۔

جو یہاں پیو تو حرام ہے وہاں پیو تو حلال ہے۔ انہی کے ٹولے کے مفتی منیب الرحمان صاحب بھی قرآن و حدیث کی ایسی تشریحات کرتے رہے کہ علماء سوء ہوتے کیا ہیں؟ سب کو سمجھ آگئی۔


ان عناصر کے ساتھ ساتھ

1۔ عامر لیاقت

2۔ جواد احمد

3۔ شاہد آفریدی

4۔ قاسم علی شاہ

اور

5۔ مرزا انجینئر جیسے زبان درازوں کو بھی میدان میں اتارا گیا۔


ان سے پہلے بھی "جعلی صحافیوں" کی ایک کھیپ گوگلی نیوز اور "نیا دور" کی صورت میں گالیوں کی برسات کر رہی تھی۔

لیکن۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق جتنے بھی بدزبان مارکیٹ میں اتارے گئے وہ منہ کی کھا کر ایسے راندہء درگاہ ثابت ہوئے کہ لوگوں کے دلوں سے اتر گئے۔


ترے دل سے نکالے تو کہاں پہنچے

جب پہنچے تو یاد آیا، نکلنا بھی ضروری تھا


چشم فلک نے بدمعاشی کی وہ حدیں بھی دیکھیں کہ جس میں سیاستدانوں کو زود و کوب کیا گیا، ارشد شریف کو قتل کیا گیا اور باقی ماندہ تجزیہ نگاروں کو بھی ارشد شریف کی طرح خبردار کر کے بھیگی بلی بنا دیا گیا، ٹی وی شوز بند ہو گئے۔ اور قانونی کارروائی کرنے کے الفاظ کو دہشتگردی سے نہ صرف تعبیر کیا گیا بلکہ اسی پر سال بھر چکر لگتے رہے، اور ڈاکوؤں کو منبر و محراب کی مسندیں مل گئیں ان پر تحقیق و تف کرنے والے سرکاری ملازم بے موت مارے گئے۔ ملک میں سے اشیائے خورد و نوش ختم ہو گئیں، کسان کو انہی تجربہ کاروں کے سابق دور کی طرح برباد کر دیا گیا۔


لیکن

زمین جنبد نہ جنبد گل محمد

اب صورتحال یہ ہے کہ سری لنکا میں تو شاید چند لوگ ایسے تھے جن کے اندر انقلاب فرانس کے جیسی خراب کھوپڑیاں موجود تھیں لیکن یہ تو پاک سر زمین شاد باد ہے یہاں ایسے حالات کی ضرورت کیوں پیش آئے۔

اگے تیرے بھاگ لچھئیے۔

اتوار، 1 جنوری، 2023

سرد موسم کا راج: عبدالرزاق قادری


لاہور میں سردی کی لہر کافی شدید ہے، سب کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اس بار میں نے اور فیملی نے مختلف قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہے جنہیں بیان کیا جائے گا۔ اور جب بھی کسی دوست سے ملتا ہوں، انہیں محتاط رہنے اور ہاتھوں کو گرم رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔

میں نے کئی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر دیکھا ہے برف کی طرح ٹھٹھرے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ سرد موسم کے اعتبار سے انسان کو ٹمپریچر میں رہنا چاہیے۔ یہاں ٹمپریچر سے مراد بخار نہیں ہے۔ انجوائے کرنے والی حرارت کی بات کر رہا ہوں جس کو پنجابی میں "نگھ" کہتے ہیں۔

حکیم اعجاز صاحب Hakim Ijaz Hussain 

کہتے ہیں کہ انسان کو ہر موسم میں موسمی شدت سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

لاہور شہر کے اندر سرکاری نلکوں میں جو پانی کبھی کبھار آ جاتا ہے اور لوگ اس کو پانی کی ٹینکی میں محفوظ کر لیتے ہیں وہ اگلے چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے اور نہایت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ لوگ اسی ٹھنڈے پانی کو استعمال کرتے ہیں لیکن جن کے پاس گیزر کی سہولت موجود نہیں وہ ٹھنڈے ٹھار پانی سے ہاتھ منہ دھوتے ہیں، اور وضو کرتے ہیں۔ سموگ کے دور میں بار بار چہرہ دھونے سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ٹھنڈا پانی جان نکالتا ہے اور اس سے بیمار ہونے کا خدشہ رہت ہے۔

لاہور کی سردی ہمارے لیے شدید ہے لیکن پہاڑی اور برفانی علاقوں کی نسبت یہ سردی درمیانے درجے کی ہے اگر یہ ان علاقوں کی طرح منفی درجہ حرارت میں چلی جائے تو ہمارا رہن سہن مختلف ہوگا۔ کیونکہ برفانی علاقوں میں گھروں کو ہر وقت گرم رکھا جاتا ہے اور پانی گرم ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ گرم کپڑوں کا التزام اور خشک میوہ جات کے ساتھ ساتھ جو کچھ بھی دیسی اور گرم چیز کھانے کو مل جائے، جیسا کہ دیسی گھی، گوشت اور دودھ یا دیسی انڈے! لوگ انہیں کھاتے ہیں اور بچوں کو سردی میں آزاد نہیں چھوڑ دیتے۔ ان کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے۔ اور سرد علاقوں کے بچے بھی یہ سب چیزیں سیکھ لیتے ہیں۔

جبکہ لاہور والے مفلس و نادار لوگ، امیر لوگوں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس بہتر لائف سٹائل موجود ہے کہ وہ گرم گھر سے نکلے تو گرم کار میں جا گھسے، وہاں سے نکلے تو فوراً گرم ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ اور اسی طرح وہ سردی کے موسم میں آئس کریم بھی کھا سکتے ہوں گے۔ لیکن جن لوگوں کے پاس اس طرح کی آٹومیٹک سہولیات موجود نہیں ہیں وہ کیوں پہلوانی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ دور دراز کے دیہات میں دن کے وقت خوب دھوپ پڑتی ہے تو گھر کا ماحول گرم ہو جاتا ہے وہاں زمین سے نلکے یا موٹر پمپ سے گرم پانی بھی مل جاتا ہے، ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ جبکہ لاہور شہر کے ڈربوں میں مرغیوں کی طرح قید وہ دیہاتی لوگ جو سہولیات ڈھونڈنے کے چکر میں یہاں چلے آئے اور ادھر آ کر نئی مصیبتوں میں پھنس گئے ان کی زندگی، گاؤں والوں سے کئی گنا زیادہ مشکل ہو چکی ہے یہاں نہ تو دھوپ ملتی ہے نہ ہی صاف فضا۔ نہ تازہ پانی نہ دیسی غذا۔ یہاں جعلی دودھ۔ فارمی انڈے۔ اور مہنگائی۔۔۔ نہ میدان، نہ کھیت، نہ کوئی پارک۔۔۔ کنکریٹ کے بنے مکانات کا ایک جہنم زار ہے، جس کا نام لاہور رکھا ہوا ہے۔ اور اس میں قید نئی نسل کے معصوم بچے، جنہیں زندگی کی رونق کا اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ماں باپ کس خوبصورت ماحول کو چھوڑ کر یہاں آ بسے تھے۔

تو اب میں اپنا بتاتا ہوں کہ اس مرتبہ ہم نے ان سردیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا۔

ہم چونکہ شاہدرہ لاہور کے مضافات میں چلے گئے تو یہاں قریب فصلیں ہیں جو دریائے راوی کے سیلاب کے خدشے کے باعث مکانات میں تبدیل نہیں ہو پائیں۔ یہاں دھوپ بھی مل جاتی ہے، دیسی انڈے بھی مل جاتے ہیں۔ بھینسوں کی حویلیاں بھی ہیں، پیسے ہوں تو تازہ خالص دودھ بھی مل جاتا ہے۔ اور فصلوں میں سے تازہ پھل (امرود) بھی دستیاب ہیں۔ یہاں کچھ مسائل بھی ہیں جیسا کہ فیکٹریوں کا دھواں، اور اینٹوں کے بھٹے کی چمنی سے نکلنے والا زہر، اڑتی گرد اور ناقص رویے کے حامل لوگ۔۔۔ لیکن لاہور شہر کے قرب میں رہنے کی اتنی سی قیمت تو چکانی پڑے گی۔

یہاں چولہے میں گیس آنے کے اوقات مقرر کر دئیے گئے ہیں تو سحری کے وقت چائے وغیرہ پینے کے لیے ہم نے گیس کا ایک سلنڈر بھر رکھا ہے۔ اور آگ تاپنے کے لیے ٹال سے لکڑیاں بھی خرید رکھی ہیں۔ کمروں میں آگ جلا کر ان کا درجہ حرارت بڑھا کر گرم رکھتے ہیں، گرم چیزیں کھاتے ہیں۔ گھر کے تمام افراد گرم پانی پیتے ہیں۔ پانی ابال کر کولر میں یا کسی برتن میں رکھ لیتے ہیں اور ٹھنڈا پانی ہرگز نہیں پیتے۔ موٹر چلا کر گرم پانی سے منہ ہاتھ دھوتے ہیں گرم پانی سے وضو، اور پانی ابال کر تازہ پانی میں مکس کر کے بھی کام چلاتے ہیں۔

دن کے وقت جب دھوپ نکلے تو لازمی طور پر اسے سینکتے ہیں۔ میں رات کو سردی میں ٹھنڈے ماحول میں نہیں پڑھاتا لازمی طور پر کچھ کھاتا یا پیتا ہوں تا کہ ٹھنڈ کا اٹیک نہ ہو پائے۔

میں ہر وقت جرسی اور کوٹ اوڑھے رکھتا ہوں کل چند منٹ بے احتیاطی ہو گئی تھی تو سر کو ٹھنڈ لگ گئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، سن 2008ء کی جنوری سے ہمشیہ سردیوں میں سر کے گرد گرم ٹوپی لپیٹے رکھتا ہوں اور موجودہ دور میں دماغ کا زیادہ خیال رکھ رہا ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر سردی کا جھٹکا لگ جائے تو اس کے خلاف جا کر کچھ اقدامات کئے جاتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ 2022ء/2023ء کی سردیوں میں کسی نے بھی مجھ سے ہاتھ ملایا تو میرا ہاتھ گرم ہی محسوس ہوا۔ کبھی ٹھنڈا نہیں رہا۔ الحمدللہ

جمعہ، 4 نومبر، 2022

ترجمانی اور بیانیے

بھئی!

کچھ لوگوں نے مجھے عمران خان کا ترجمان سمجھ لیا ہے۔

تو وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان نہیں ہوں اور نہ ہی کسی کے پورٹ فولیو کا ذمہ دار ہوں۔

اور جو کچھ میں یہاں لکھتا ہوں وہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔

میں نے ساری زندگی کسی ایک بھی بندے سے نہیں کہا کہ عمران خان کی جماعت جوائن کرو یا طاہر القادری کا فلسفہ مانو!

لیکن انعام کے حق دار میرے وہ دوست ہیں جو میرے عمران خان کی گھڑی چوری ہو جانے کی خبر دیتے ہیں اور طاہر القادری کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔

پاکستان کے قانون میں موجود ہے کہ جس سرکاری ملازم کو بیرون ملک سے کوئی تحفہ ملتا ہے وہ اس کو اگر رکھنا چاہے تو آدھی قیمت حکومت کے خزانے میں جمع کروا کے رکھ لے۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں نے ہر تحفے کی آدھی قیمت ادا کر دی تھی۔ یہی ارشد شریف کی آخری وڈیو تھی کہ جس میں وہ دوسرے سرکاری ملازموں کی تفصیلات کے غائب ہونے کی بات کر رہا تھا لیکن خود غائب کر دیا گیا۔

محترمہ مریم نواز کا بیان گردش کر رہا تھا کہ عمران خان نے تحفوں کی وجہ سے اتنے کروڑ روپے کمائے یا بچائے ہیں تو شاید وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ آدھی قیمت ادا کر کے بھی خان صاحب کو کروڑوں کا فائدہ ہو چکا ہے۔

لیکن اگر مریم صاحبہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تحفوں کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع ہی نہیں کروائی گئی تو بہت آسان طریقہ ہے کہ اس کی تفصیلات عدالت میں لے جائیں اور کیس کر دیں(حکومتی کاغذات آپ کے ہاتھ ہیں آج کل آپ کے چچا جان وزیراعظم ہیں)۔ تاکہ جج صاحبان کوئی فیصلہ کر دیں۔ لیکن اگر آدھی قیمت سے پیسے بچانے کا غصہ ہے تو یہ سراسر حسد ہے۔

اب ایک مزےدار صورتحال یہ ہے کہ کل سے تحریک لبیک کے لوگ ٹویٹر پر کہیں نظر نہیں آ رہے۔

پہلے مریم نواز کا میڈیا سیل جو پوسٹ ان بے چاروں کو بنا دیتا اور رانا ثناء اللہ بیان دے دیتا وہ ان کا مؤقف بن جاتا لیکن اب وہ نون لیگ کے بھی خلاف ہو چکے ہیں تو ان کا مائی باپ کوئی نہیں رہا۔

اور ایک مزےدار سچ یہ تھا کہ مفتی منیب الرحمان کا جو کالم صبح اخبار میں شائع ہوتا، شام کو اسحاق ڈار لندن سے وہی بیان جاری کر دیتا۔

لیکن اب ڈار صاحب وزیر خزانہ بن گئے ہیں تو مفتی صاحب کے کالم شاید اب کوئی بھی نہیں پڑھتا۔

جو حالت کل کور کمانڈر ہاؤس پشاور اور جی۔ ایچ۔ کیو راولپنڈی میں ہوئی ہے۔ افواج پاکستان نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی کہ عوام پاکستان کبھی اس طرح ان کے دفتروں پر چڑھ دوڑیں گے۔

پچھتر سالہ تاریخ میں فوج نے ہی عوام کو مکے دکھائے۔ کبھی عوام نے فوج کو مکے نہیں دکھائے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان کی افواج میں پاکستان ہی کے شہری ہیں۔

اور فوجی بھائی اپنے گھر والوں کے اثرات بھی لیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے فوج کے لوگ اسی ملک میں سے ہیں اور ان کو بھی ملک میں ہونے والے سب حالات کی خبر ہے۔

جب افواج پاکستان کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ فوج نیوٹرل اور غیر سیاسی ہے تو لوگ افواج کے دفتروں پر کیوں دھاوا بول رہے ہیں۔

یعنی لوگوں کو فوج کے بیانات پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟

دنیا کی "نمبر ون" آئی ایس آئی کے آفیسرز جب فیض آباد کے پہلے دھرنے کے بعد عدالت میں "خفیہ" رپورٹ لے کر گئے تو ڈان اخبار کی خبر کے مطابق جج نے کہا کہ یہ سب باتیں تو پہلے ہی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ تم خفیہ کون سی لائے ہو؟

یہ جج صاحب کا جملہ معترضہ تھا، کچھ طبقات کا خیال ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس دور میں "ختم نبوت" کے قانون کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کوئی خاص معاملہ نہیں ہوا تھا۔ جب حل ہو گیا، ختم ہو گیا تو مولوی خادم صاحب کو کسی نے سجھایا کہ اب تم اسلام آباد جاؤ اور دنیا میں نام و نمود حاصل کرو

مریم نواز کے میڈیا سیل کا خیال ہے کہ اس تبدیلی یا کمیٹی کا سربراہ تو شفقت محمود تھا۔

جبکہ جب دھرنا طول پکڑا تو شاہ محمود قریشی بھی وہاں گیا اور عمران خان نے بھی خادم رضوی کی حمایت کی تھی۔

لیکن بعد میں وہی خادم رضوی کا ایٹم بم عمران خان کے خلاف بھی استعمال کیا گیا۔

ڈاکٹر محمد اقبال جس کو آپ علامہ اقبال کہتے ہیں انہوں نے بلاوجہ تو نہیں کہا تھا کہ، دین _ ملا فی سبیل اللہ فساد۔

پہلے اس کام کے لیے مولانا مودودی، حق نواز جھنگوی، حافظ سعید اور قاضی حسین جیسے کردار موجود تھے ہمارے آج کے دور نے خادم صاحب کی صورت میں چابی والا کھلونا دیکھ لیا۔ جب چابی 🔑 دی گئی تو ناچنا شروع کر دیا

پھر چاہے اس میں ختم نبوت کا حوالہ لگا لو، فرانس یا نیدرلینڈز کا لگا لو۔ یا امریکا کی مخالفت۔ نقصان تو پاکستانی عوام کی اخلاقیات کا کر دیا اور مجاہد یہ بن گئے۔

جمعرات، 3 نومبر، 2022

کسی کی موت کا دکھ

تحریر:عبدالرزاق قادری
جتنے ”مُلّا“ گیت گا گا کر امام حسین کی شان بیان کر رہے ہوتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ پر یہ وقت کیوں آیا۔

اس کی تاریخی، سیاسی، اور قبائلی وجوہات کیا تھیں تو فوراً ان کی زبان زہر اگلنا شروع کر دے گی۔

آٹھ، نو اور دس محرم کو تقریبا سارے ہی بریلوی مکتب فکر کے مبلغین نے اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر مولوی خادم کا یہ وڈیو قول لگایا تھا، کہ "سانوں کربلا دے شہیداں دا کوئی دکھ نہیں"۔

یعنی مولوی خادم اور اس کے عقیدت مندوں کو سانحہ کربلا کا دکھ ہی نہیں تھا۔ تو پھر پاکستان میں بندے مروانے کے بعد کیوں مشتعل ہوتے ہیں۔

ابھی چند دن پہلے میں نے طیب نورانی کا وڈیو کلپ لگایا تھا کہ اس کے خیال میں ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے خان صاحب کو گرفتاری دے دینی چاہیے تھی۔ وہ تو کورٹ سے ضمانت لے گیا۔ لیکن پھر تم نے اس وڈیو کے فورا بعد قانون ہاتھ میں لیا، انتشار پھیلایا اور اپنے بندے قتل کروائے (جو کہ بادی النظر میں مفتی منیب الرحمان کے بقول ایک منصوبے کے تحت نظر آتے ہیں)۔ پھر بہت دکھ ہوا۔

یہ ایسا کیوں ہے کہ جامعہ منہاج القرآن میں بندے قتل ہوں تو ن لیگ، بریلوی وہابی اور دیوبندی خوش ہوتے ہیں۔

لال مسجد میں قتل ہوں تو دوسرے تمام فرقے خوش کیوں ہوتے ہیں۔

یتیم خانہ میں قتل ہوں تو سب کو دکھ کیوں نہیں ہوتا۔ سادھوکے میں ہیلی کاپٹر سے گولیاں ماری جائیں تو دکھ کیوں نہیں ہوتا۔

25 مئی کو تحریک انصاف کے بندوں پر ظلم ہو تو خوشی کیوں ہوتی ہے۔ دکھ کے واقعے پر دکھ نہیں منا سکتے تو خوشی منانے کا رواج تو بند کیا جائے!

سدھو موسے والا کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون تھا، لیکن اگر وہ ریاست کے ظلم کے خلاف کھڑا تھا تو اس کے قتل پر دکھ ہوتا ہے۔ ہر انصاف پسند اور اس کے مداح کو دکھ ہوگا۔

نیلسن منڈیلا اور مارٹر لوتھر کنگ (جونئیر) کی تحریک بالکل اسی طرز پر انسانی حقوق کی ترجمانی کے لیے تھی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کے لیے انقلاب برپا کیا۔

سورہ الممتحنہ کی آیت 8 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہیں (مکہ کے) ان غیر مسلموں کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے عقیدے کے نام پر تمہارے ساتھ دشمنی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، لیکن اگلی آیت میں فرماتا ہے جو غیر مسلم عقیدے کے نام پر تمہارے دشمن بنے اور تمہیں گھروں سے نکالا (ہجرت پر مجبور کیا) ان کے ساتھ دوستی رکھنے سے اللہ منع فرماتا ہے۔

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ‎﴿٨﴾‏ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٩﴾‏

ترجمہ:

اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں، (8) اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں، (9)

سورہ ممتحنہ

۔

اس کے علاوہ فتح مکہ کے دو سال بعد نازل ہونے والی سورہ توبہ کی آیت نمر 4 میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ کیا جا چکا ہو، ان کے ساتھ لڑائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

۔

جو غیر مسلم بلا وجہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتے، اللہ بھی ان کے ساتھ دشمنی رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

تو یہ مولوی کون ہوتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت پیدا کر کے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے والے؟

اسلام کے ساتھ ان زہر آلود زبان والے مولویوں سے بڑی غداری کس نے کی ہے؟

اگر غیر مسلموں کے ساتھ دشمنی کرنا ہی اسلام کا مقصد ہوتا ہے تو فتح مکہ کے دن مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔

لیکن آج مؤرخین کہتے ہیں کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اور خون بھی نہیں بہایا گیا۔

اگر تو سدھو موسے والا، مسلمانوں کا اس لیے دشمن بنا ہوا تھا کہ اسے مسلمانوں کے عقیدے سے تکلیف تھی تو اس کا موت کا سوگ منانے سے منع کرنا حق بنتا ہے۔

لیکن اگر اس بے چارے کا بھی وہی پیغام تھا جو مسلمانوں کا ہے کہ بھارت کی حکومت انسانوں پر ظلم بند کرے تو، پھر تو بندہ ہی "ویری گڈ" ہے۔

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی یہودی کے جنازے کے لیے موت کے دکھ میں کھڑے ہونے کا درس دیتے تو مولوی کیوں نفرت پھیلاتا ہے۔ (حوالہ: سنن ابو داؤد حدیث نمبر 3174)

منگل، 1 نومبر، 2022

حضرت رٹے شاہ

 عبدالرزاق قادری 

میرا ایک دوست دانش المفتی کہتا ہے کہ تم علماء کے خلاف ہو۔ تمہارے اندر ان کے خلاف کوئی بغض ہے۔ حالانکہ یہ بات اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں نے کسی کے غلط کام کو ہی غلط کہا۔ یعنی کسی کے جھوٹ کا پول کھولا۔

اب اس نے روپ خواہ مولوی کا دھار لیا ہو، جو خود کو خدا کا نمائندہ سمجھتا ہے اور عوام کے اذہان پر ایسے مسلط ہیں جیسے یہ روٹیاں کمانے کی خاطر مدرسے میں پڑھنے والے کوئی امام غزالی بن گئے۔۔۔!!!

اپریل سے لے کر اب تک یہ نیم ملائیت زدہ طبقہ مجھے عمران خان کا حمایتی کہتا رہا، اب پچھلے ماہ سے جب وزیراعظم شہباز شریف کے متعلق ان کی "کافر" والی بات وائرل ہوئی ہے تو میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ بھائی جان! آپ اسے کافر نہیں کہہ سکتے تو کیا اب میں ن لیگ کا رکن ثابت ہو گیا؟

مسئلہ یہ ہے کہ ان جاہلوں کو دین و مذہب کا علم نہیں ہے حتی کہ یہ اردو کتابیں پڑھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے انہیں گالیاں دینا بہت آسان کام لگتا ہے۔

اب بات کو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میں بھی مذہب کا طالب علم ہوں۔

لیکن یہ نام نہاد ٹھیکے دار آج کل مجھے جو کتابیں اور باتیں تجویز کر رہے ہیں وہ چیزیں تو میں بچپن میں پڑھ چکا تھا

یہ بے چارے فاضل درس نظامی ہو کر، اگر محض اردو پڑھنے کے قابل ہو جائیں تو بڑی بات ہے وگرنہ ان کا تو سارا علم ہوائی طور پر سنی سنائی گپیں ہیں۔

ہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ، گپ اچھی طرح سے مار لیتے ہیں اور سامعین کو قصے کہانیاں، دوہڑے ماہیے سنانے میں ید طولی رکھتے ہیں۔

یہ *بارہ مہینوں کی تقریریں*

اور *ابرار خطابت* جیسی شعلہ بیانی کی کتابوں سے تقریر کا فن رٹ کر خود کو امام اعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

تقریر کا فن سارا ہی رٹا ہے۔

پہلے مجھے ستائیس برس تک ضلع لیہ سے فیصل آباد اور وہاڑی سے لاہور تک کے تمام وہابی مقررین کے طرز بیان پر غور کرنے کا موقع ملا، انہوں نے تین چار کیسٹیں یاد کی ہوئی تھیں،  پورے فرقے کے پاس چند گپیں ہیں وہی ہر جگہ بولتے رہتے ہیں جن کا ہزارہا بار رد بھی ہو چکا ہے۔

دیوبندی مقررین کے پاس اپنے پچھلے صدی کے اکابرین کے جھوٹے قصیدے بنانے کے علاوہ کوئی بات نہیں ہے،  وہ ایسے ہی فلمیں گھڑ کر سناتے رہتے ہیں،  مثلا

"اللہ! کیا عظیم لوگ تھے، حضرت شیخ الہند اپنے دور کے غزالی اور رازی سے بڑھ کر تھے۔ سبحان اللہ"۔

بس یہ فلم

نہ قرآن نہ حدیث

۔۔

اب شیعہ فرقہ کے ذاکرین کا کیا کہنا! ان کے متعلق ان کے اپنے علامہ جواد نقوی کے بیانات سن لیں وہی کافی ہیں کہ "شیعہ نے اسلام ذاکر سے سن کر سیکھا ہے نہ کہ کسی کتاب سے پڑھ کر"

اب اس سے زیادہ میں کیا کہوں

۔۔۔اب آتی ہے باری ہمارے فرقے کی

تو پیر مکی، داتا علی ہجویری کے دو صدی بعد پیدا ہوئے۔ لیکن ہمارے مبلغین کہتے ہیں کہ پہلے پیر مکی دربار پر حاضری دو، کیونکہ وہ داتا صاحب کے سینئر ہیں۔ تو صدی بعد پیدا ہونے والا کیسے پہلے دفن ہو گیا۔

یہی جھوٹ میراں زنجانی کے متعلق پھیلایا گیا، وہ بھی داتا صاحب کی وفات کے بعد پیدا ہوئے، خواجہ معین الدین چشتی سے ملاقات رہی 125 سال بعد فوت ہوئے۔

اسی طرح کی بے شمار جھوٹی کہانیاں مسجدوں میں اور محفلوں میں نشر ہوتی رہتی ہیں اور یہ لوگوں کے عقائد کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ، یہ شعر بھی بابا فرید گنج شکر کا ہے۔

"چل اوتھے وسیے جتھاں ہون سارے انھے

نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے"

لیکن ہر کوئی اس کو بلھے شاہ کے شعر کے طور پر پیش کرتا ہے۔

پانچ روز قبل میرے ہمسائے مکان کی چھت پر محفل میلاد میں ایک کسی نئے دور کے مقرر نے جو تقریر کی وہ آج سے بیس برس قبل ہمارے پاس کیسٹ ہوتی تھی، علامہ خان محمد قادری (قرآن یونیورسل) کی وہ تقریر جسے ہم 2001ء میں کیسٹ پلیئر پر سنتے تھے وہ مکمل طور پر رٹا لگا کر اس مولوی نے یہاں سنا دی۔

سبحان اللہ

جب علامہ خان محمد قادری نے وہ تقریر سن 2000ء میں جامعہ محمدیہ غوثیہ بادامی باغ (داتا نگر) لاہور میں سوچ کر بنائی ہوگی، اس دور میں ہمارا آج کے دور کا یہ مبلغ *حضرت رٹے شاہ* کوئی چار پانچ برس کا ہوگا۔

اب اس نے یاد کر کے بیان کر لیا ہے تو وہ شاہ ولی اللہ اور مجدد الف ثانی سے بھی بڑا بزرگ بن چکا ہے۔

اس کے بعد دوسرا مولوی سٹیج پر آیا، وہ تقریر بھی کوئی بیس برس پہلے میں نے سنی ہوئی تھی، یعنی شاید دونوں مبلغین آپس میں دوست تھے اور اکٹھے ہی کیسٹیں خرید کر یاد کر کے رٹا لگاتے ہوں گے۔

اب ان لوگوں نے اصلاح امت کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے اور یہ ہمیں بتائیں گے کہ عمران خان فرانس کا یار ہے اور نعوذبااللہ شہباز شریف "کافر" ہے۔۔۔۔!!!۔۔۔؟؟؟؟۔

جاہل المجہول سے ایک قدم پیچھے

 تحریر: عبدالرزاق قادری

لوگو!

پاکستان میں ان تین قسم کے شدت پسندوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگ موجود ہیں، پاکستان کے بقیہ لوگ اگر کوئی معقول بات کر بیٹھیں تو خدارا کسی جملے کی بنیاد پر کسی بندے کو

1۔ پٹواری

2۔ یوتھیا

3۔ ملا متشدد قاری

نہ کہہ دیا کریں

ممکن ہے کہ بندہ ایک علیحدہ سوچ رکھنے والا ہو۔

ملا متشدد قاری کی اصطلاح، جاہل قسم کے ایسے نادان دوستوں کے لیے ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ درس نظامی کے آٹھ سال کے پیپر نقل کر کے رٹا لگا کر پاس کرنے والا علامہ صاحب بن جاتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہر حرف عین شریعت ہوتا ہے۔ ایسے جاہلوں کو سمجھانا ایک دقیق عمل ہے کہ جو لوگ آج ائمہ یا علماء کے نام سے تاریخ کا حصہ ہیں وہ ان سب روایتی رسوم و رواج سے بری اور مستغنی ہوتے تھے جو اس زمانے کے علماء، صوفیاء اور محدثین نے اپنائے ہوتے تھے۔

جس بندے کو یہ وہم ہو جائے کہ "میں علم سے بھرا ہوا ایک ڈرم ہوں"، دراصل وہی شخص جہالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

تعلیم و تعلم دراصل اپنی اندر چھپی جہالت سے واقف ہونے کا نام ہے۔ کتابیں تو دنیا میں کروڑوں موجود ہیں لیکن شاید اگر کوئی بندہ اپنے اندر کی جہالت سے ناواقف رہے تو وہ ہزاروں کتابیں پڑھ کر بھی جاہل المجہول کہلائے گا۔

یعنی وہ بندہ جو اپنی جہالت سے بھی بے خبر ہو۔

اپنی کم علمی کا اعتراف ہونا دراصل ایک نعمت ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہوتا ہے میں نے کس مقام پر اور کس موضوع پر زبان کو بند رکھنا ہے۔

وگرنہ انسان کی باتیں تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں اور وہ جس شعبے کا ماہر ہونے کا ڈھونگ رچا رہا ہو، اسی میں جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔

میں نے "متکبرین" کی اصطلاح ایسے لوگوں کے لیے ایجاد کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آواز بلند کر دینے سے مدمقابل کی دلیل چھوٹی پڑ جائے گی۔

یا ہٹ دھرمی دکھانے سے حقائق بدل جائیں گے

یا یہ کہ "ہم کسی تحقیق کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کرنے کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ جو وہم ہمیں ہو چکا وہی عین حق ہے"۔

اللہ نے قرآن پاک کی سورہ لقمان میں فرمایا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی، کہ "بے شک آوازوں میں سے بد ترین آواز گدھے کی ہے"۔

اب آپ غور کریں کہ کتنے لوگ ایسی شدید آواز نکال کر خود کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی آواز گدھے کی آواز سے کہیں زیادہ آگے نکل جاتی ہے بلکہ ان کی شدت کے مقابلے میں گدھے کی آواز میں ایک ردھم محسوس ہوتا ہے۔

قرآن پاک کے مطابق ہٹ دھرمی سب سے بڑا کفر ہے۔ جس بندے کو حق سمجھ آ جائے اسی پر اس کو مان لینا فرض ہے۔

لیکن اگر کسی کو حق کا یقین ہو گیا پھر بھی ہٹ دھرمی کی وجہ سے منکر رہا تو اسے کافر کہا جاتا ہے۔

جب کسی مفسد مبلغ کی خود کی بات غلط ثابت ہو جائے تو ہٹ دھرمی اختیار کر کے وہاں اٹک جاتا ہے اور قرآن پاک کے "جہالت" کے متعلق دئیے ہوئے پیمانے پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے۔

اور طرفہ تماشا یہ کہ جن اقوام کو حق سمجھ نہیں آیا اور اس کا یقین نہیں ہوا ان کو منہ پھاڑ کر کافر کہا جاتا ہے، جس کی قرآن و حدیث(سنت، سیرت) کی رو سے اجازت نہیں ہے۔

یہ کھلا تضاد اور جہالت کی انتہا ہے۔

اب ٹی۔ ایل۔ پی۔ کی قیادت اپنی مبینہ کرپشن چھپانے کے لیے اپنے ماننے والوں کو طفل تسلیاں یوں دے رہی ہے کہ، "جی جمعے کے خطبے میں سعد رضوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو کافر کہہ دیا تھا، یہی ہمارا ردعمل تھا فرانس کے صدر کے ساتھ ملاقات پر"۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ پچھلے سال بھی یہی کر لیتے!!!

ویسے بھی شریعت اسلامیہ کی رو سے وزیراعظم شہباز شریف کو اس معاملے کافر کہنے کی ممانعت صلح حدیبیہ کی مثال سے ملتی ہے۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رہتے تھے تو مکہ میں کئی گستاخ موجود تھے۔

لیکن چھ ہجری کو انہی مکہ والوں کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا گیا۔ اور فتح مکہ ایک خاص طریقہء کار تحت 8 ہجری کو برپا کی گئی جس کے بعد ایسے ناہنجاروں کو سزا دی گئی۔

تمہارے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟

صرف گالیوں سے بھری زہر آلود زبان؟؟؟؟ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف۔۔۔

حالانکہ حدیث پاک کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ جبکہ ملا متشدد جیسی سوچ رکھنے والوں نے خود اپنے آپ کو کیا ثابت کیا ہے؟

مدینہ میں منافق موجود تھے جو کہ گستاخ _ رسول ہی تھے، تو ان کو کیا سزا دی گئی؟

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ تک پڑھی۔

مجھے ایک جعلی مولوی صاحب کہنے لگے کہ فتح مکہ (8 ہجری) کے بعد کسی غیر مسلم کو زندہ رہنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ اور اسی طرح کی بات ایک "مبلغہ" نے یوٹیوب پر میرے کمنٹ کے جواب میں کہی۔

حالانکہ سورہ توبہ 10 ہجری کے حج _ اکبر میں نازل ہوئی اور آیت نمبر 4 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔

تحریک لبیک اور ن لیگ کے جنونی نوجوان مجھے یوتھیا کہتے ہیں جبکہ میں ان جھوٹے مولویوں کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کافر مت کہو، تو اب میں کس پارٹی کا ہوا۔

حالانکہ لوگ تو مجھے ایک حافظ قرآن، پھر قرآن پڑھانے والا، اور صاحب مطالعہ ہونے کی وجہ سے مولوی ہی سمجھتے ہیں۔

لیکن خدارا۔۔۔!!! ان جاہلوں کے ٹولے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔

میں کم از کم اپنی جہالت سے واقف ہوں۔

جمعہ، 28 اکتوبر، 2022

اہل بیت کے دشمن مولوی

 عمران خان نے اپنے وزارت عظمی کے پہلے دن اپوزیشن سے کہہ دیا تھا ہم نے 126 دن دھرنا دیا تھا، اگر کسی کو شوق ہے تو پورا کر لے۔ ہم "مولانا" کو کنٹینر خود دیں گے۔ پھر ساڑھے تین سال ن، پی پی، اور مولانا شوق پورا کرتے رہے اور ان کا احتجاج بقول محمد مالک پی ٹی وی پر بھی دکھایا جاتا تھا۔

رہی بات، شہباز شریف کے خادم ادنی کی تحریک لبیک کی غنڈہ گردی کی، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انہوں نے جتنے بھی احتجاج کیے اور دھرنے دئیے۔ سب کے سب قرآن و حدیث کے احکامات کی رو سے باطل تھے۔

یہ جاہل لوگ کتاب و سنت کے مقابلے میں ایک جعلی شدت پسندانہ ذہنیت بنائے بیٹھے ہیں اور ان کا حتمی مقصد صوبہ پنجاب میں ن لیگ کی جماعت کی حمایت کرنا ہوتا ہے۔

طاقتور طبقات اور ٹی۔ ایل۔ پی۔ میں گھسے امریکی کرداروں نے ان جنونی شدت پسندوں کو خوب خوب استعمال کیا اور تحریک انصاف کی حکومت کو مفلوج کیے رکھا۔

جس کے باعث حکومت کے لوگوں کو دباؤ میں رکھا گیا۔ یہ اسلام کے جھوٹے مبلغین، اسلامی تعلیمات کے عین برعکس خطابات کرتے رہے اور مسلمانوں ہی کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرتے ہیں۔

مولوی خادم حسین نے ساری زندگی زہر آلود زبان استعمال کر کے نفرت پھیلا کر جو بھی لوگ اکٹھے کیے، انہیں عرفان شاہ مشہدی کے بھائی محفوظ مشہدی کی جھولی میں ڈال دیا اور اس نے نون لیگ کے ساتھ الحاق رکھا ہے اور یوں ہمیشہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی اور مولوی خادم کی محنت کا پھل نون لیگ نے کھایا۔

خادم رضوی کی برین واشنگ کرنے میں حزب التحریر(خوارج) کا بہت کردار رہا ہے، جس کا ذکر انہوں نے "خفیہ نوجوان" کے عنوان سے سہیل وڑائچ کے ساتھ انٹرویو میں کیا ہے۔ وہاں سنا جا سکتا ہے۔

یہ جماعت امریکی مقاصد کے لیے خوارج کے جیسی سخت زبان استعمال کرنے والی جماعت ہے۔ اور وہی آیت("ان الحکم الا للہ") پڑھتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ لڑنے والے خوارج پڑھتے تھے۔

برطانوی غنڈے عرفان شاہ مشہدی کا بھائی، محفوظ مشہدی پنجاب اسمبلی کا رکن رہا ہے اور آج بھی نون لیگ کا رکن ہے۔ اور یہ بندہ مولوی اشرف آصف جلالی کے پیر کا بیٹا ہے تو اب وہ اپنے پیروں کے خلاف تو نہیں بولے گا۔

پیر خواہ کتنا ہی کرپٹ کیوں نہ ہو، وہ اپنے اندھے عقیدت مندوں میں تو جنت کے ٹکٹ بانٹتا پھر رہا ہوتا ہے۔

*یہ تو تھیں، اس طبقے کی سیاسی خدمات*

اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان کی مذہبی خدمات پر۔ ان میں سے کسی مولوی یا پیر نے ایک بھی ایسی کتاب نہیں لکھی جسے کوئی کتاب کہا جائے، (گرامر کی کتاب علیحدہ موضوع ہے)

اور خوارج کی پیروی میں یہ طبقہ دس محرم کو حضرت علی اور اہل بیت کے دشمنوں پر سیمینار کرتا ہے۔ 2018ء میں اونچی مسجد اندرون بھاٹی گیٹ لاہور میں بھی خطاب کا یہی موضوع تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی بار یہ چاند چڑھایا ہے کہ دشمنان اہل بیت کے سیمینار رکھے گئے، اور انہیں بے گناہ قرار دیا گیا۔

ارشد شریف اگر دنیا سے چلا گیا تو قیامت تک جینے کا سرٹیفکیٹ کسی کے پاس نہیں ہے۔

میں نے بہت سے جو کام خوف کی وجہ سے روکے ہوئے تھے، اور مزید پختہ ہونے کا منتظر تھا اب آہستہ آہستہ اپنی قوم کی دبی ہوئی آواز کو آزاد کرنے کی کوشش میں ہوں کہ اپنے حصے کا کام کر جاؤں۔

*مر تو میں نے بھی جانا ہی ہے تو اب ڈر سے باہر کیوں نہ نکلا جائے*

آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جن مولویوں اور پیروں کا سارا زور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کو نیک ثابت کرنے میں لگتا ہے اور ساری زندگی اسی موضوع پر وعظ کیا ہو، کیا وہ بھی امت مسلمہ کے ساتھ مخلص ہیں؟

مولوی خادم نے پنجابی میں واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ "ہم نہیں مانتے تمہاری تحقیقات کو۔ ہم ان تحقیقات کو دور پھینک دیں گے۔"

کیوں نہیں مانتے؟

حدیثوں کی کتابوں میں اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں سب موجود ہے تو پھر بھی کیوں نہیں مانتے۔

یہ سیدھا سا فارمولا ہے کہ جو اہل بیت رسول پاک کے وفادار نہیں اور جو لوگوں اہل بیت کے دشمنوں کو ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہی لوگ ہر دور کے کرپٹ اور خائن حکمرانوں کے حق میں بولتے ہیں۔

اگر واضح طور پر ان کے حق میں نہ بولیں تو بددیانت حکمرانوں کے خلاف بولنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف بول کر کرپٹ لوگوں کی طاقت بنتے ہیں اور یہی کام بریلوی، دیوبندی اور وہابی علماء کی اکثریت نے پاکستان میں کیا ہے۔

میں ان کے مکروہ چہروں سے مزید نقاب اتار دوں کہ 2013ء میں جب مصر کے خوارجی حکمران ڈاکٹر مرسی پر مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو پاکستان کے مولوی اور مفتی اس کے حق میں بولے۔

لیکن جب ترکی کے ظالم بادشاہ رجب طیب اردگان نے تھوڑا عرصہ بعد اپنے ملک میں فتح اللہ گئولن کی تحریک کو برباد کیا تو کوئی مولوی نہیں بولا کیونکہ وہ صوفیاء کی جماعت ہے۔ اگر وہ بھی خوارج کی جماعت ہوتے تو جماعت اسلامی سے لے کر مفتی منیب الرحمان تک سب کو درد ہوتا۔

عبدالرزاق

اتوار، 18 ستمبر، 2022

حکمران اور تاریخ کی نا انصافی

 از افکار: عبدالرزاق قادری

ازل سے زیادہ تر حکمرانوں کا انجام برا ہوا ہے، لوگ ان کا ماتم نہیں کرتے۔ لیکن جو اپنے ملک کے لئے اچھے سمجھے جاتے تھے اور کسی سازش یا ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گئے انہیں یاد کیا جاتا ہے، یا کسی ملک کے بانی، اور محافظ لیڈر کی یاد منائی جاتی ہے۔ یا پھر جن کے کردار سے ابھی گرد نہیں جھاڑی گئی ان کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔

یعنی کچھ ناپاک لوگوں کی شان میں قصیدے پڑھنا بھی بعض اوقات سرکاری پالیسی ہوتی ہے، جیسا کہ انگریز کے وفادار اور مسلمانوں کے مفادات کے مخالف سر سید احمد خان کو پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کی نیکوکاری کا بانی اس کا پرستار شیخ محمد اکرام ہے۔

شیخ محمد اکرام نے، اپنی تین جلدوں پر محیط کتاب

1۔آب کوثر

2۔رود کوثر

3۔موج کوثر

میں محمد بن قاسم 712ء سے لے کر 1940ء تک جھوٹ بنائے ہیں جس میں بہت سے عظیم لوگوں کی ہتک کی، اور کئی ناپاک لوگوں کو عظیم بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ مستشرقین سے بھی بدتر انداز میں تاریخ ہندوستان پیش کی گئی ہے۔

موج کوثر، مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے گزرے حالات کو جھوٹ کا بڑا پلندہ ہے جسے ترتیب دینے میں ملک پاکستان کے پہلے وزیر اطلاعات و نشریات شیخ محمد اکرام نے وہ کردار ادا کیا کہ آج تک نویں دسویں، گیارھویں بارھویں اور بی۔اے، ایم۔اے اور آگے تک مطالعہ پاکستان کے نام پر بکواس پڑھائی جاتی ہے۔

جس دور میں جنگ آزادی 1857ء کے عظیم ہیروز کو "باغی" قرار دے کر سرسید احمد خان جیسے غداروں کی ہیرو کے طور پر تصویر کشی کی جا رہی تھی تب بھی اور بعض حلقوں میں آج تک انگریزی تعلیم اور کالج یونیورسٹی کی تعلیم کی مخالفت کی جارہی ہے تا کہ کوئی بندہ چار لفظ پڑھ جھوٹ لکھی گئی تاریخ کا سینہ چاک نہ کر پائے۔

اور طرفہ تماشا یہ کہ بعد میں 1857ء کے دور میں انگریزوں کے کتے نہلانے والے "شمس العلماء" کے لقب پا گئے۔ اور مسلمانوں کی طرف سے لڑنے والے ہمارے تعلیمی نصاب کے مرکزی دھارے میں جگہ نہ بنا پائے۔ اور ایس۔ایم۔اکرام کی یہ جعلی تاریخ سی۔ایس۔ایس کے لیے سب زیادہ تجویز کردہ کتاب ہے۔

آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ سر سید، اگر "سید" کا بیٹا تھا تو "سر" کیسے بنا، اور "خان" کیسے کہلوایا۔

وہ بیٹا تو سید کا تھا۔

سر، اور، خان دونوں انگریز حکومت کی وفاداری میں ملے ہوئے خطاب تھے۔ یعنی اس کو "خان" کا لفظ "سید" سے زیادہ عزیز تھا تو ہی سید کے بعد خان کی کمی باقی تھی۔ اور "سر" کا خطاب صلیبی ہیرو کو ملتا تھا۔ جیسے پاکستان میں "نشان حیدر" وغیرہ ہیں۔

انگلشیہ حکومت نے ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی "سر" کا خطاب دینا چاہا، آپ نے بہت حیل و حجت سے جان چھڑانا چاہی، لیکن وہ ہر شرط مان گئے۔ اور اقبال کو سر کا خطاب دیا۔ تو محمد علی جوہر نے اقبال کا مذاق یوں اڑایا کہ،

("سر" ہو گئے سرکار کی دہلیز پر اقبال)

تو اقبال نے اپنی قلبی کیفیت کی صفائی بھی دی۔

پاکستان میں آج کے دور میں تاریخ کا سب سے بڑا نام نہاد سکالر، ڈاکٹر مبارک علی ہے۔ جس کے ایک شاگرد نے مبارک علی کے ساتھ منسوب کر کے رائے بریلی اور بانس بریلی کو بی۔بی۔سی۔اردو پر ایک شہر بنا دیا۔ یہی غلطی خود ساختہ صحافی "امیر حمزہ" نے کی ہے۔ ان عظیم تخلیقی ذہنوں کو 400 کلومیٹر فاصلہ نظر ہی نہیں آتا، اور اتنے وسیع المطالعہ ہیں کہ دو شہروں کے باسیوں کو ایک شہر کا رہنے والا لکھ دیا۔

مطالعہ پاکستان میں جن ہستیوں کو قیام پاکستان کی تحریک کے لئے قائدین قرار دیا گیا ہے ان میں سے بیشتر کا اس تحریک سے خاک تعلق نہیں تھا بلکہ بہت سے ایسے لوگ بھی شامل کر دئیے گئے ہیں جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف تھے اور اقبال و قائد کی ذات پر کیچڑ اچھالتے تھے۔

ہمارے یہاں کئی انتہائیں ہیں۔

ایک وہ لوگ جو ڈاکٹر مبارک علی کی طرح قیام پاکستان کا اسلام سے تعلق نہیں مانتے، انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں جھوٹے قصے بنا رکھے ہیں۔ دوسرے وہ جو مذہبی انتہا پسند اور قائد اعظم پر فتوے لگانے والے تھے۔ تیسرے وہ جو سب مانتے ہیں لیکن تاریخ غلط پڑھ بیٹھے ہیں۔ چوتھے وہ جو 1930ء کے بعد قائد کے ساتھ ہو لیے اور قیام پاکستان کی تحریک میں شامل تھے۔

بدھ، 15 جون، 2022

دین سے دُوری اور دینِ مُلا

چار سُو جو یہ پھیلا فساد ہے

اختلاف یہ سارا ما بین الجُھّال ہے


قُولُوا للنّاسِ حسناً، حُکم ہے قرآن کا

لیکن مُلّا کی نظر میں نفرت حلال ہے


خبر پھیلانے سے پہلے تحقیق و تصدیق کرو

انجان قوم کو ایذا دینے سے ہوتا ملال ہے

(سورۃ الحجرات) 


یہ ملیچھ، وہ کافر، فُلاں گستاخ، فُلاں جہنمی

سب ہٹ دھرمی کا بچھایا ہوا جال ہے


ہر کسی کو جہنم رسید کر کے رہیں گے

یہ مبلّغینِ فساد کا طرزِ خیال ہے


پیدائشی مُسلم ہے ساری اُمت رسول کی (الحدیث) 

لیکن وعظِ شعلہ بیان کے نزدیک واجب القتال ہے

بدھ، 1 جون، 2022

ڈاکٹرمحمد محسن خان

ڈاکٹرمحمد مُحسن خان
انگریزی خبر: سیک ذکیر حسین، ڈاکٹر یاِسِر قاضی
اُردو ترجمہ: عبدالرزاق قادری، معاونت اے۔بی۔مُغل

ڈاکٹر محمد مُحسن خان، قرآن مجید کے ناموَر انگریزی مترجم اورصحیح البخاری کے سب سے پہلے مُسلمان انگریزی مترجم تھے، آپ قندھار، افغانستان سے آئے ہوئے مہاجر خاندان میں 1927ء؁ کو قصور، ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر مُحسن نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اپنی میڈیکل اور سرجری (طب و جراحت) کی سند حاصل کی اور پھر یونیورسٹی ہسپتال لاہور میں کام کیا، پِھر وہ انگلستان (برطانیہ، یو۔کے) چلے گئے، جہاں سے اُنہوں نے 1950ءکی دہائی میں چھاتی کی بیماری کا ڈپلومہ، یونیورسٹی آف ویلز سے حاصل کیا۔

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے سعودی عرب کے بادشاہ کی دعوت پر 1960ء؁ کی دہائی میں نوزائدہ مملکتِ سعودی عریبیہ کے شہر طائف میں وزارتِ صحت میں کام کِیا۔

وہ السعود ہسپتال فار چیسٹ (Chest) ڈِسیزز، میں بطورِ ڈاکٹر تعینات رہے۔ پھر وہ مدینہ شریف میں منتقل ہو گئے، وہاں اُنہوں نےچھاتی کی بیماریوں والے، کِنگز ہسپتال میں بطورِ چیف کام کیا، اور آخر میں اِسلامی یونیورسِٹی مدینہ کے کلینک میں ڈائریکٹر رہے۔

امریکا میں پیدا ہونے والے اِسلامی علوم کے ماہر ڈاکٹر یاسر قاضی ، ڈاکٹر محسن خان کے ترجمۂِ قرآن و بخاری شریف کرنے کی جانب راغب ہونے کی کہانی بیان کرتے ہیں کہ: ”مدینہ میں ایک شاندار خواب میں ڈاکٹر محسن خان نے نبی پاکﷺ کی زیارت سے شرف یابی حاصل کی اور یہ ایک طویل خواب تھا اُ س میں نبی پاکﷺ کا پسینہ مبارک بھی پینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اُنہوں سعودی عرب کے مفتیِٔ اعظم شیخ بن بازسے تعبیر پوچھی جو اُس یونیورسٹی کے مہتم تھے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپ کسی طرح سے سُنتِ نبویﷺ کی خدمت کریں گے۔

ڈاکٹر محسن نے کہا کہ، ”مجھے جھٹکا لگا ، کہ میں تو اسلامی تعلیمات کا علامہ نہیں ہو بلکہ میری تعلیم و تربیت طِب کی ہے۔ مُجھے اُس وقت تک اندازہ نہیں تھا کہ میں کیا خدمت انجام دے سکتا ہوں جب تک مُجھے یہ سمجھ نہ آئی تھی کہ میں انگریزی زبان میں رواں تھا اور سب سے اہم اِسلامی مذہبی کام تب تک انگریزی میں پیش نہ کیے گئے تھے“، تو اِس طرح اُنہوں نےاپنی زندگی اِسلامی علوم میں ہرممکن تراجم کرنے لیے وقف کر دی۔“ ڈاکٹر یاسِر قاضی کو یہ باتیں مُحسن خان نے خود بتائی تھیں۔ کیونکہ یاسر قاضی اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔

چونکہ آپ عُلومِ اسلامیہ کے ایک ماہر نہ تھے، لہٰذا شیخ بن باز نے شیخ محمد تقی الدین الہِلالی کو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مِل کر یہ کام کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ شیخ الہلالی مراکش سے آئے ہوئے ایک اِسلامی سکالر تھے،وہ اُن علماء کی جماعت میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے مغرب (West) میں سے علومِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کی، اُنہوں نے نازی دَورِ حکومت میں جرمنی سے ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر محسن خان اور شیخ الہلالی دونوں نے مشترکہ طور پر قرآن پاک کا جو ترجمہ کیا اُسے کِنگ فہد پرِنٹننگ اینڈ کمپلیکس آف قرآن سے چھاپا گیا تھا، جہاں سے بقول شخصے ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ قرآن مجید شایع کیے جاتے ہیں۔ اُن کا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ”دی نوبل قرآن“ ہے، جِسے ”ہِلالی۔خان“ ترجمہ بھی کہا جاتا ہے۔اُس کے بعد ڈاکٹر محمد مُحسن خان صحیح البُخاری کا ترجمہ خود ہی کرتے رہے۔

ماشاء اللہ

اب سُنّہ ڈاٹ کام پر بُخاری شریف کا انگریزی ترجمہ وہی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے لِکھا۔(فقط۔عبدالرزاق)

ڈاکٹر محسن خان کا وِصال 14 جولائی 2021ء؁ کو 94 برس کی عُمر میں سعودی عرب کے شہر مدینۃ المنورہ میں ہُوا، اور آپ جنت البقیع (قبرستان) میں مدفون ہیں۔

حوالہ جات:
________________

بدھ، 7 جولائی، 2021

عمار اقبال۔۔۔ ایک تعارف ۔۔۔ پہلا حصہ

عمارؔ اقبال۔۔۔ ایک تعارف ۔۔۔ پہلا حصہ

تحقیق و ترتیب: عبدالرزاق قادری

آپ کے ہر دلعزیز شاعر و فلسفی جنابِ  عمار  اقبال یوں تو اپنی اچھوتی شاعری اور منفرد لب و لہجے کے سبب دُنیا بھر میں مشہور و معروف ہیں، لیکن اُن کی ذاتی زندگی اور حالات باقاعدہ کہیں تحریری صورت میں موجود نہیں ہیں،   میں نے مختلف  انٹرویوز سُن کر اور خود انٹرویو کر کے عمار اقبال کے حالات ترتیب دئیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

عمار اقبال صاحب کے والدِ محترم اقبال مسعود 1970ءکے بعدکسی دور میں لکھنؤ ،بھارت سے ہجرت کرکے کراچی پاکستان منتقل ہوئے، اور آپ خاندانی طور پر حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں اس لئے اُن کا پورا نام اقبال مسعود  ادھمی تھا، عمار اقبال کا مکمل نام بھی ”عمار اقبال ادھمی“ ہے، یوں اُن کی اس صوفی بزرگ  کے ساتھ نہ صرف نسبت بلکہ اُنسیت بھی بڑھ جاتی ہے، غالباً اُسی درویشانہ خون کے رگوں میں دوڑنے کے باعث عمار صاحب کے تخیل میں بلا کی زرخیزی اور استغنائیت اور کمال جوہر پایا جاتا ہے، وہ خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں،کہ  شہرۂ آفاق مصور”پکاسو“ نے کہا تھا کہ تمام لوگ فنکار پیدا ہوتے ہیں، پھر گزرتے وقت کے ساتھ بہت سوں میں سے وہ فنکارانہ صلاحیتیں زمانہ چھین لیتا ہے، اور بہت کم اپنے اندر کے فن کو سنبھال کر رکھ پاتے ہیں۔

 اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتاہے کہ صرف عمار ہی کو تقدیر نے  ابلاغ کی اُس طاقت سے کیوں نوازا،جو کہ اس ادھمی خاندان میں یا اُن کے ہم عصروں میں جانے کتنے لوگ اس کا مظاہرہ نہیں کر پارہے، تو اس کاجواب بھی وہ ”قیصر وجدی“ صاحب کو  انٹرویو میں دے چکے ہیں کہ جب انسان کو کسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تواس کے بعد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس سے گھبرا جاتا ہے، ڈر کر اپنی فن سے منہ پھیر لیتا ہے، یا اُسی ناکامی سے طاقت پکڑ کر،  وہ مزید مضبوط اعصاب کا مالک بن جاتا ہے اور زمانے کو وہی کام کرکے دِکھا دیتا ہے جس کا اُسے ذوق ہو اور کچھ کر دکھانے کا جنون ہو،،عموماًیا تو اُس سے توقع نہیں کی جاتی یا پھر اُس شخص کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں جن کو عبور کرتا ہوا وہ منزلِ مقصود تک جا پہنچتا ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاعری کی کٹھنائی  میں یوں عازمِ سفر ہونا کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن عمار نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے فن کے بل بوتے پر پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔

لوہے سے یاد آیا کہ اُن کے والد صاحب، جناب اقبال مسعود  ایک مکینکل انجینئر تھے اور پاکستان سٹیل ملز میں کام کرتے تھے، وہ عمار سے کہا بھی کرتے تھے کہ میں پگھلے ہوئے لوہے میں سے زندگی نکال کر تمہارے لیے لاتا ہوں۔

            یہاں مجھے تنویر سپرا کا شعر یاد آرہا ہے۔

؎            آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے

میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

عمار، اپنے والد کے لیے یوں گویا ہیں۔

پتھر کے بازو تھے سینہ لوہے کا

تاج میں حضرت کے تھا نگینہ لوہے کا

قزاقوں کے بعد سمندر جانتا ہے

ڈوب نہیں سکتا تھا سفینہ لوہے کا

موڑ رہا ہے اپنی نرمی گرمی سے

پونچھ رہا ہے کوئی پسینہ لوہے کا

شیشے کی اس کارگہ زرداری میں

کام کیا کرتا ہے کمینہ لوہے کا

اور عمار کی والدہ ایک معلمہ تھیں، یوں عمار ہمیشہ (سے ہی) اپنی والدہ کے ساتھ تعلیمی ادارے میں جاتے رہے،اور خود ہمارے ممدوح،آکسفورڈ ہائی اسکول اور انڈس یونیورسٹی، سے تعلیم حاصل کرکے آغا خان کالج میں تدریس فرماتے رہے،آپ کے والد نے آپ کی شاعری دیکھ کر علمِ عروض وغیرہ سیکھنے کی ترغیب دی تو اہلِ فن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ عمار اقبال کی دعا سلام ایک اُستاد شاعر نعیم گیلانی صاحب سے ہوئی تو اُنہوں نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے جدید وسائل کے ذریعے عمار اقبال کو علمِ عروض یعنی شاعری کے فنی محاسن  بڑی محنت سے سکھائے جس کا نہ صرف عمار اقبال کو اچھا خاصا ادراک ہے، بلکہ وہ اُستادِ محترم کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں اور اپنی پہلی کتاب ”پرِندگی“ کا انتساب بھی نعیم گیلانی کے نام کیا ہے۔

عمار صاحب کہتے ہیں کہ اُن کے خاندان کے کچھ لوگ اقبال مسعود (عمار کے والد) کے پاکستان آ جانے سے قبل یہاں آ چکے تھے، اور یہاں رہ رہے تھے، کچھ لوگ بعد میں آئے، عمار کے دادا جان اور والدین کی یہ دو نسلیں تو اپنے ڈرائنگ روم میں ہندوستانی زندگی، کلچر اور اپنے پرانے رہن سہن کو یاد کرتے رہے۔لیکن عمار اقبال کی پیدائش فروری 1986ء میں ہوئی اور اب اُن کا کہنا یہ ہے کہ یہاں سے ہماری تیسری نسل کا پاکستان میں وجود پیدا ہوا، جو یہیں پیدا ہوئے، بلکہ اُن میں سے عمار اقبال اپنی فیملی میں سب سے پہلے اِس (پاکستانی) دُنیاآئے اور وہ پہلا پاکستانی ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ تو یہ جو تیسری نسل ہے یہ خالصتاً پاکستانی ہے، اس کا کلچر، رہن سہن، اور یادیں پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔

 اُنہوں نے کراچی ہی میں تعلیم حاصل کی اور آغا خان کالج میں پڑھاتے رہے، اُن کی آواز خاصی اچھی ہے،جس میں درس و تدریس کا ایک خاص کردار ہے۔آپ بزنس،اُردو اور انگریزی پڑھا تے ہیں۔اور اِس کےعلاوہ کراچی میں ایک ایف۔ایم ریڈیو میں پروگرام بھی کرتے رہے ہیں، گزشتہ چند برس سے لاہور میں مقیم ہیں،اور یہاں بھی لکھنے لکھانے کا شغل قائم ہے۔ آپ کے گھر میں ایک گوشہ اُن جانوروں کے لئے مخصوص ہے جو لاوارث ہو جاتے ہیں، اور پھر وہ یہاں وقت گزارتے ہیں۔

عمار نے اپنے سُخن کی ابتداء غزل سے کی، اور اُن کی پہلی غزلوں میں سے یہ غزل بھی تھی۔

؎                 عکس کتنے اُتر گئے مجھ میں

پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں

ایک مارکیٹنگ ادارے کے لئے بھی لکھتے ہیں جس سے روزی روٹی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، تراجم کرتے ہیں،شاعری لکھتے ہیں، شاعری کھاتے ہیں، شاعری پیتے ہیں، اس کے علاوہ نغمے لکھتے ہیں اور چودہ اگست 2021ء میں ایک بہت خاص نغمے کے لئے پُر جوش بھی ہیں۔

نعیم گیلانی

آپ تقریباً 2010ء سے مشاعرے میں پڑھ رہے ہیں، جبکہ اُستادِ محترم نعیم گیلانی نے منع فرمایاتھا کہ ا بھی مشاعرے میں شرکت مت کرنا لیکن اُن کی بات نہیں مانی گئی،اور آج اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ مجھے اُس کا نقصان ہوا،2014ء تک کراچی بھر میں مقبول ترین شاعر بن چکے تھے لیکن پھر بھی ایک بارایک مشاعرے کے سٹیج سے بغیر وجہ بتائے اٹھا بھی دئیے گئے، حالانکہ اس سے قبل عالمی مشاعروں میں بھی اپنا کلام سُنا چکے تھے۔

آپ سینئرز کی رہنمائی کو سراہتے ہیں خصوصاً اپنے اُستاد جی، نعیم گیلانی کی بہت سی خوبیوں کے معترف ہیں، ساتھ ہی ساتھ عمار صاحب کا کہنا ہے، کہ گیلانی صاحب کا اپنا اسلوب بالکل منفرد ہے، اور انہوں نے کبھی اپنا رنگ مجھ پر نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی، کہ شاگرد کا اپنا اُسلوب اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے علاوہ اُن کی پہلی کتاب بھی  نعیم گیلانی صاحب نے ہی شائع کی۔وہ نعیم گیلانی  کا اپنی پسند کا ایک شعر مثال کے طور پر  پیش کرتے ہیں۔

؎              گِلہ معاف مگر میں جہاں پڑا ہوا ہوں

میرے چراغ تیری روشنی اِدھرکم ہے

 

غزل اور اصنافِ سُخن

عمار کے خیال سے غزل کی بندشیں  ایک  سخنور کو اپنے انداز سے لاشعوری پر بہت کچھ بیان کرنے پر مجبورکرتی ہیں، جو بعض اوقات شاعر کو خود اندازہ  نہیں ہوتا کہ وہ کیا پیش کررہا ہے۔ مثلاً یہ کہ غزل آپ کے تخیل کی چڑیا کو اُلٹا اڑاتی ہے، آپ قافیہ سے ردیف سے خیال کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور یوں آپ کے لامحدود جذبات و احساسات اوزان کی پابندیوں میں بندھ کر رہ جاتے ہیں اور اظہار نہیں ہو پاتا۔ عمار کے نزدیک اصناف سُخن ایک گلاس یا برتن کی سی مثال ہے، جس میں کسی کو پینے کے لیے جو دیں گے اُسی طرح کے برتن میں دیں گے،جیسا کہ چائے کپ میں، او ر پانی گلاس میں۔ یہ پیش کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اظہار  کس صورت میں کرنا چاہتاہے، یا پھر وہ کیا مواد پیش کرنا چاہ رہا ہے! اُسی طرز کی صنف کو اپنا کرپیش کیا جاسکتا ہے ۔

تصانیف

1.    عمارؔ اقبال کے پہلے شعری مجموعے ”پرندگی“ کی تقریبِ رونمائی 2 فروری 2015ء کو کراچی آرٹ کونسل میں ہوئی تھی، جس میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند، پروفیسر سحر انصاری، میراحمدنوید اور فاطمہ حسن صاحبہ مدعو تھے۔

2.    عمار اقبال کی تصانیف میں سے ایک پاول بھی انگریزی زبان میں لندن  سے طبع ہوا  ہے، جو کہ شاعری اور ناول(Poetry+Novel) کو جمع کرکے پاول کہلایا،جس میں فلسفیانہ فکشن ہے ، آپ کی کتاب ”پرندگی“ اور چند تازہ غزلیں شبھم شرما(शुभम शर्मा) نے ہندی میں ترجمہ کرکے بھارت میں بھی چھاپ دی ہیں۔

3.    عمار اقبال نے ایک کتاب ”پرونیٹ“ (نثری نظموں پر مشتمل) بھی لکھی ہے جو کہ نثری سانیٹ ہوتی ہے، لفظِ ”پرونیٹ“ انگریزی کے دو لفظ (Prose+Sonnet) مل کر پرونیٹ بن جاتا ہے۔ آپ کے مطابق پاکستان میں کوئی دو اڑھائی سو نوجوان پرونیٹ لکھ رہے ہیں، جو کہ مختلف ادبی رسالوں میں چھپ رہے ہیں،  سب نے اُس میں اپنی اپنی تبدیلیاں کی ہیں، کسی نے اُس کو چودہ سطروں میں لکھا ہے،کسی نے تھوڑی بہت تبدیلی کی ہے۔

اُردو زبان میں پرونیٹ کے مؤجد عمار اقبال ہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ اُسلوب میں نے نثری نظم کا ”علاج“ کرنے کے لیے متعارف کروایا ہے۔بات صرف یہ ہے کہ نثری سانیٹ (پرونیٹ) میں لائنز نثر کی ہیں جس میں کوئی میٹر(وزن) نہیں ہے، اور اِس میں نظمیت قوافی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ عمارکہتے ہیں کہ خود پرونیٹ لکھنے  میں بھی زیادہ مزا اس لیے آیا کہ اس میں ایکسپریشن (اپنی ذات کااظہار کرنے) کا زیادہ سے زیادہ موقع ملتا ہے۔

عمارؔ اقبال کی دیگر کُتب کا مفصل تعارف اس تحریر کے دوسرے حصے میں آ رہا ہے، اور ان شاءاللہ اُس سے بھی اگلے حصہ میں آپ کے متعلق کچھ ہم عصراہلِ علم کی آراء شامل ہوں گی۔اور اس کے بعد ان کے کلام پر سیرحاصل گفتگو ہوگی، پھر آپ کے مفصل  حالتِ زندگی بیان ہوں گے، یُوں یہ ایک پوری کتاب کی صورت اختیار کرجائے گی۔

نمونۂِ  کلامِ عمارؔ

بلبلیں نغمہ سرا ہوں مدحتِ غالب کے بعد

لب کشا عمار ہونا منتِ غالب کے بعد

شاہ کے دربار میں غالب کئی آئے گئے

حضرتِ غالب سے پہلے حضرتِ غالب کے بعد

جاری ہے۔۔۔